نیشنل ہسٹری میوزیم : جدوجہد آزادی کی کہانی تصاویر کی زبانی


لاہور: جدوجہد آزادی لاکھوں انسانوں کی ہجرت، انسانی لہو میں لت پت ٹرینوں اورٹوٹی پھوٹی بیل گاڑیوں کے طویل سفرسے عبارت ہے۔ سچے جذبوں کے اسی ’سفر‘ سے نوجوانوں اورآئندہ نسلوں کو روشناس کرانے کے لیے ’نیشنل ہسٹری میوزیم‘   کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔

تاریخ میں ہونے والی سب سے بڑی انسانی ’ہجرت‘ کی جو منظرکشی تصاویرکے ذریعے کی گئی ہے اورجس طرح خیمہ بستی کو دکھایا گیا ہے اسے دیکھ کرلوگوں کے احساسات انہیں ماضی میں سفر کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔

1947 میں جب روئے زمین پر جدوجہد آزادی اپنے نقش کندہ کررہی تھی توانسانی المیہ جنم لے رہا تھا۔ اسی المیے کی عکاسی نیشنل ہسٹری میوزیم کے درودیوارکرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ایک کروڑ چالیس لاکھ سے زائد افراد کی ہجرت، بے سروسامانی، رنج والم اوردکھ  و تکالیف کو لاہورمیوزیم کی انٹیلی جنٹ ڈیجیٹل دیواریں اوردیگر حصے اس طرح  جدید انداز میں پیش کرتی نظر آتے ہیں کہ سر خودبخود ’عقیدت‘ سے جھک جاتے ہیں اور سلام پیش کرتے ہیں ان گمنام سپاہیوں کو جو راہ حق کو اپنے خون سے روشن کرگئے ہیں۔

نیشنل ہسٹری میوزیم آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام سے آگاہی دلانے کے ساتھ ساتھ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اورگاندھی کے درمیان لکھے خطوط سے بھی روشناس کراتا ہے۔

میوزیم میں قرارداد لاہور موجود ہے تو پاک فوج کے اثاثہ جات کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ پاکستانی ہونے پہ فخر کرنے والوں کے لیے پہلا سبز پاسپورٹ پوری آن بان شان سے موجود ہے تو حکومت پاکستان کی جانب سے مختلف ادوار میں جاری کی جانے والی پاکستانی ’کرنسی‘ بھی اپنی یاد دلاتی دکھائی دیتی ہے۔

ہم نیوز سے اسی ضمن میں بات کرتے ہوئے نیشنل ہسٹری میوزیم کا دورہ کرنے والے ایک ’پاکستانی‘ کاکہنا تھا کہ ’’اگرپاکستان نہ ہوتا تو آج ہمیں کوئی نہ پوچھتا‘‘۔ نمناک آنکھوں سے اپنے جذبات کا اظہارکرتے ہوئے پاکستانی نے کہا کہ ’’اس دھرتی ماں کے لیے ہمارے بزرگوں کو جس دکھ، کرب، تکلیف اور اذیت سے گزرنا پڑا ہے کسی حد تک یہ میوزیم اس کی عکاسی بہتر طورپر کرتا دکھائی دیتا ہے‘‘۔

نیشنل ہسٹری میوزیم میں ’گمنام‘ ہیروز کے ساتھ ملک کا نام روشن کرنے والے کھلاڑیوں اور شوبز ستاروں کے ماڈلز بھی رکھے گئے ہیں جو ’بھلے‘ لگتے ہیں۔


متعلقہ خبریں