روایتی معاشرے میں غیر محسوس تبدیلی، بیٹیوں کی پیدائش “سلیبریٹ” ہونے لگی

روایتی معاشرے میں غیر محسوس تبدیلی، بیٹیوں کی پیدائش "سلیبریٹ" ہونے لگی

‘منہ میٹھا کیجئے، میرے گھر بیٹی پیدا ہوئی ہے’

“مبارک ہو بچے صحت مند ہیں لیکن چاروں بیٹیاں ہیں”

لیبرروم کے باہر موجود ساجد خان کو یہ اطلاع دیتے ہوئے نرس کے لہجے میں خوشخبری سے زیادہ تعزیت کا عنصر تھا، لیکن بچیوں کے والد ساجد کا ردِ عمل غیر متوقع اور حیران کن تھا۔ جب اس نے آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائیں اور تیز اواز میں بولے”شکر الحمداللہ، آپ نے مجھے ایک ساتھ چار رحمتوں سے نواز دیا”

ساجد خان کے یہ تاثرات کوہاٹ کے سرکاری اسپتال میں لیبر روم کے باہر موجود بہت سے لوگوں کے لئے متاثر کن اور حیرت انگیز تھے کیونکہ جس معاشرے میں ایک بچی کی پیدائش کو سو فیصد قابل قبول نہیں سمجھا جاتا وہاں ایک ساتھ چار بچیوں کی پیدائش پر یہ رد عمل یقینا حیران کن قراردیا جاسکتا ہے۔

“منہ میٹھا کیجیے میری بیٹی پیدا ہوئی ہے” دفتر کے ساتھی نے مٹھائی کا ڈبہ اگے کیا، گلاب جامن اٹھا کر مبارکباد دی لیکن تجسس کے لئے پھر تصدیق کی “بیٹی ہی پیدا ہوئی ہے یا بیٹا؟” جواب آیا “ماشاء اللہ بیٹی ہی ہے”۔

وجہ یہی ہے کہ اولاد نرینہ کی پیدائش پر ہمارے ہاں ڈھنڈورے پیٹنا، مٹھائیاں تقسیم کرنا، پاس پڑوس رشتہ داروں، دوستوں کو خوشخبری دینا تو معمول ہے لیکن گزشتہ پندرہ بیس سال میں یہ تبدیلی واضح دیکھنے میں آرہی ہے کہ اب بچیوں کی پیدائش کو “سلیبریٹ” کیا جا رہا ہے۔ پہلے پڑوس اور ایک دفتر میں کام کرنے والے افراد کو بھی ایک دوسرے سے متعلق کم ہی علم ہوتا کہ ان کی بچیاں کتنی ہیں، البتہ اولاد نرینہ کی تشہیر خوب کی جاتی ہے۔

اب تعلیم یافتہ طبقے میں زیادہ اور گاؤں دیہات میں کچھ کم یہ غیر محسوس تبدیلی دیکھی جارہی ہے کہ صرف بیٹا نہیں بیٹی کی پیدائش پر بھی مٹھائی بانٹنے کی روایت پروان چڑھنے لگی ہے۔

اس غیر محسوس تبدیلی کا اندازہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ تشکر اور محبت بھری پوسٹس کرکے مرد حضرات حلقہ احباب میں اپنی بیٹی پیدا ہونے کی خبر شئیر کرتے ہیں۔

یہ تبدیلی واقعی آئی ہے اور آئی ہے تو کیسے آئی؟

ماہر عمرانیات پشاور یونیورسٹی کے ڈاکٹر محمد ابرار مشرقی معاشرے میں ہونے والی رویوں کی اس تبدیلی کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ “بالکل یہ ٹرینڈ بدلا ہے، جو ایک عنصر میں دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ کھیل، سیاست سمیت مختلف شعبوں میں ایسی خواتین سامنے آئیں جنہوں نے شہرت، کامیابیوں سے لوگوں کا یہ تاثر زائل کردیا کہ یہ کام صرف مرد کر سکتے ہیں”۔

ڈاکٹر ابرار کے مطابق دوسرا کردار یہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں خواتین کے لئے حصول تعلیم پر کافی توجہ دی گئی، اس سے شعور پیدا ہوا۔ وہی تعلیم یافتہ لڑکیاں اپنے شریک حیات کو بھی اس حوالے سے باشعور بنانے میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ یہی وہ نئی سوچ ہے جس کے تحت اب بیٹیوں کی پیدائش پر ان کا استقبال بھی اولاد نرینہ کی طرح ہونے لگا ہے۔

ڈاکٹر ابرار کا یہ بھی ماننا ہے کہ صرف باپ کی طرف سے کنبے کو پالنے کی روایت کمزور پڑ گئی ہے، اس لیے اب ماں بھی فیصلوں میں حصہ لینے لگی ہیں۔ جوائنٹ فیملی سسٹم ٹوٹنے سے بھی یہ تبدیلی آئی ہے، پہلے مشترکہ خاندان میں بیٹی کی پیدائش ہوتی تو اچھا خیال نہیں کیا جاتا۔ اب تعلیم یافتہ اور شعور رکھنے والے چھوٹے کنبے بن رہے ہیں جہاں بیٹے بیٹی کے ساتھ یکساں سلوک برتا جانے لگا ہے۔

ڈراموں اور فلموں میں خواتین کے کردار پر اعتراضات اپنی جگہ ایک الگ بحث ہے لیکن اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ اب ایسے حساس سماجی مسائل کو بھی اجاگر کیا جارہا ہے جو ایک عام ناظر سے لے کر بڑے ناقدین تک کو اپنی سوچ کے زاویے بدلنے پر مجبور کرنے لگے ہیں۔

کسی کی ذاتی زندگی میں بیٹی کے جنم پر خوشی منانا، کسی ڈرامے یا فلم کی کہانی یا پھر میڈیا پر کسی خاتون کی کامیابی کی وائرل ہونے والی خبر، اس سارے عمل میں جو مثبت پہلو سامنے آرہا ہے وہ مختلف واقعات میں بیٹیوں کی اہمیت اور ان سے محبت کو پروان چڑھانے میں بلاشبہ اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ یہ غیر محسوس تبدیلی اسی طرح پروان چڑھتی رہی تو یہ جملہ بھی مانوس لگنے لگے گا کہ “منہ میٹھا کیجیے میرے گھر بیٹی پیدا ہوئی ہے”۔


متعلقہ خبریں