فافن کا الیکشن کمیشن سے مختلف حلقوں میں ووٹر رجسٹریشن کے تناسب میں فرق کی تحقیقات کا مطالبہ


اسلام آباد: فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) سے کہا ہے کہ وہ چاروں صوبوں کے مختلف حلقوں میں ووٹر رجسٹریشن میں تفریق کی تحقیقات کرے۔

فافن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں سب سے زیادہ رجسٹرڈ ووٹرز ہیں، جبکہ بلوچستان میں سب سے کم ہے۔ ایک بیان میں فافن نے کہا ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کی باضابطہ اشاعت کے بعد آئینی اور قانونی تقاضوں کے مطابق دسمبر 2023ء میں سخت حلقہ بندیوں کے عمل کے ذریعے حتمی شکل پانے والے 266 قومی اور 593 صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں میں آئندہ عام انتخابات میں اپنے ، اپنے نمائندوں کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔

فافن نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے 30 نومبر 2023 کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابی حلقوں (فارم 7) کی حتمی فہرستیں جاری کیں۔ اس کے بعد 12 دسمبر 2023 کو 9 حلقوں کے لئے ایک ترمیمی فہرست جاری کی گئی اور 17 دسمبر 2023 کو 13 حلقوں کی نظر ثانی شدہ فہرست جاری کی گئی تھی۔

حلقہ بندیوں کو حتمی شکل دینے کے عمل میں شہریوں کی بڑی دلچسپی اور رائے حاصل ہوئی کیونکہ الیکشن کمیشن کو ووٹرز کی جانب سے 1331 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے 345 کا تعلق قومی اسمبلی کے 184 حلقوں سے جبکہ 1008 کا 473 حلقوں سے ہے۔

قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی دونوں حلقوں سے متعلق 22 درخواستیں پیش کی گئیں۔ ان درخواستوں کا فیصلہ کرتے ہوئے کمیشن نے 66 قومی اسمبلی اور 204 صوبائی حلقوں کی علاقائی حدود میں تبدیلی کی، جیسا کہ درخواست گزاروں نے دلیل دی تھی۔

عوامی نمائندگی کے حوالے سے کمیشن کی قابل ذکر ذمہ داری کے باوجود 70 قومی اور 65 صوبائی اسمبلی کے حلقوں کی آبادی میں 10 فیصد فرق کی قانونی حد سے تجاوز کر گیا ہے۔

اس کے علاوہ انتخابی حلقوں کے درمیان آبادی اور رائے دہندگان کے تناسب کا موازنہ بھی ایک مختلف پیٹرن کو ظاہر کرتا ہے۔ کوئی بھی نئی حد بندی قانونی طور پر نئی مردم شماری کے بعد ہی ہوگی۔

فافن کے مطابق الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود پولنگ اسٹیشنز کی حتمی فہرستوں (فارم 28) میں فراہم کردہ ووٹرز کے اعداد و شمار کی بنیاد پر فافن کے جائزے کے مطابق این اے 67 حافظ آباد میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سب سے زیادہ (8 لاکھ 10 ہزار 723) ہے

جبکہ این اے 244 کراچی ویسٹ ون میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سب سے کم (1 لاکھ 55 ہزار 824) ہے۔

خیبر پختونخوا میں این اے 18 ہری پور میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سب سے زیادہ (7 لاکھ 24 ہزار 915) ہے جبکہ این اے 12 کوہستان/کولائی پلاس میں سب سے کم (ایک لاکھ 96 ہزار 125) ووٹرز ہیں۔

سندھ میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سب سے زیادہ این اے 209 سانگھڑ 1 (6 لاکھ 7 ہزار 638) ہے جبکہ این اے 244 کراچی ویسٹ ون میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سب سے کم (ایک لاکھ 55 ہزار 824) ہے۔

بلوچستان میں این اے 255 سہبت پور کم جعفر آباد کم استا محمد کم ناصر آباد میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سب سے زیادہ (5 لاکھ 32 ہزار 537) ہے جبکہ این اے 264 کوئٹہ تھری میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سب سے کم (ایک لاکھ 96 ہزار 752) ہے۔

پنجاب میں این اے 67 حافظ آباد میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سب سے زیادہ (8 لاکھ 10 ہزار 723) ہے جبکہ این اے 124 لاہور 8 میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سب سے کم (3 لاکھ 10 ہزار 116) ہے۔

اسلام آباد کے تین حلقوں میں سے این اے 47 میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سب سے زیادہ 4 لاکھ 33 ہزار 202 ہے جبکہ این اے 48 میں سب سے کم 2 لاکھ 92 ہزار 380 ووٹرز ہیں۔

صوبائی اسمبلی کے حلقوں کا جائزہ لینے سے بھی اسی طرح کے رجحانات سامنے آتے ہیں۔ پنجاب میں پی پی 7 راولپنڈی ون میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سب سے زیادہ (3 لاکھ 86 ہزار 73) ہے جبکہ پی پی 11 راولپنڈی میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سب سے کم (ایک لاکھ 25 ہزار 852) ہے۔

سندھ میں پی ایس 110 کراچی ساؤتھ فائیو میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سب سے زیادہ (3 لاکھ 15 ہزار 655) ہے جبکہ پی ایس 116 کراچی ویسٹ ون میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سب سے کم (43 ہزار 45) ہے۔

خیبر پختونخوا میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سب سے زیادہ پی کے 93 ہنگو (3 لاکھ 25 ہزار 951) ہے جبکہ پی کے 33 کولائی پلاس کوہستان میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سب سے کم (43 ہزار 481) ہے۔

بلوچستان میں پی بی 51 چمن میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سب سے زیادہ (ایک لاکھ 94 ہزار 81) ہے جبکہ پی بی 45 کوئٹہ 8 میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سب سے کم (50 ہزار 160) ہے۔

فافن نے کہا کہ مختلف خطوں اور حلقوں میں رائے دہندگان اور آبادی کا تناسب بھی ایک متنوع نمونہ ظاہر کرتا ہے۔ ووٹر رجسٹریشن میں پنجاب سرفہرست ہے جہاں کل آبادی کا 57 فیصد ووٹرز کے طور پر رجسٹرڈ ہے جبکہ بلوچستان میں ووٹرز کی رجسٹریشن سب سے کم ہے جہاں اس کی کل آبادی کا صرف 36 فیصد رجسٹرڈ ہے۔

خیبرپختونخوا میں ووٹر رجسٹریشن کی شرح 53 فیصد، سندھ میں 48.5 فیصد اور اسلام آباد میں ووٹر رجسٹریشن کی شرح 45.8 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔

قومی اسمبلی کے 216 حلقوں میں سے 45 حلقوں میں 60 فیصد سے زائد آبادی ووٹرز کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔

مزید برآں، 114 حلقے اپنی آبادی کا 51 سے 60 فیصد کے دائرے میں آتے ہیں جو ووٹرز کے طور پر رجسٹرڈ ہیں جبکہ 52 حلقوں میں ووٹر رجسٹریشن کی شرح 30 سے 50 فیصد کے درمیان ہے۔

واضح رہے کہ پانچ حلقوں میں سے ایک خیبر پختونخوا، دو سندھ اور بلوچستان کے ہیں جہاں 30 فیصد سے بھی کم ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔

قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 51 راولپنڈی کم مری میں ووٹرز کی تعداد 84.3 فیصد ہے جو پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے برعکس این اے 244 ویسٹ ون میں ووٹرز اور آبادی کا تناسب صرف 16.5 فیصد ہے۔

خیبر پختونخوا میں این اے 16 ایبٹ آباد ون میں ووٹرز کی تعداد 79.3 فیصد ہے جبکہ این اے 12 کوہستان/کولائی پلاس کوہستان میں ووٹرز کے طور پر رجسٹرڈ آبادی صرف 18.8 فیصد ہے۔

پنجاب میں این اے 51 راولپنڈی کم مری میں رجسٹرڈ ووٹرز حلقے کی آبادی کا 84.3 فیصد ہیں جبکہ این اے 125 لاہور 9 میں رجسٹرڈ ووٹرز کا حصہ صرف 37.9 فیصد ہے۔

سندھ کے حلقہ این اے 241 ساؤتھ تھری میں ووٹرز کی تعداد 60.7 فیصد ہے جبکہ این اے 235 ایسٹ ون اور این اے 244 ویسٹ ون میں ووٹرز کا حصہ بالترتیب صرف 16.6 فیصد اور 16.5 فیصد ہے۔

بلوچستان میں رجسٹرڈ ووٹرز کا سب سے زیادہ اور سب سے کم حصہ رکھنے والے حلقوں میں این اے 263 کوئٹہ ٹو (46.9 فیصد) اور این اے 274 کوئٹہ تھری (21.6 فیصد) شامل ہیں۔

متعدد عوامل ان عدم مساوات کا سبب بن سکتے ہیں جن میں مخصوص جغرافیائی علاقوں میں افغان، بہاری، بنگالی، برمی وغیرہ آبادیوں کی موجودگی شامل ہے۔

فافن کا کہنا ہے کہ داخلی نقل مکانی بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں ، کیونکہ افراد کو کام یا دیگر وجوہات کی بنا پر ان کی رہائش کی بنیاد پر ایک جغرافیائی علاقے میں شمار کیا جاسکتا ہے ، جبکہ ان کا ووٹر رجسٹریشن ان کے آبائی علاقوں میں ہوتا ہے۔

اسی طرح اسمبلی میں حلقوں کے درمیان آبادی کی مساوات پر بھی الیکشن ایکٹ 2017 (حد بندی کے اصول) کی دفعہ 20 (3) کی روح کے مطابق عمل کرنے کی ضرورت ہے، جو آبادی کے فرق کو 10 فیصد تک محدود کرتا ہے۔

الیکشن رولز 2017 کے رول 10 (5) کے باوجود جو الیکشن کمیشن کو کسی ضلع کے حلقوں میں آبادی کے فرق کو محدود کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

فافن کا کہنا ہے کہ آبادی کے فرق کو اسمبلی کے حلقوں کی بنیاد پر دیکھا جانا چاہیے جیسا کہ قانون میں خصوصی طور پر فراہم کیا گیا ہے۔ اس بنیاد پر قومی اسمبلی کے کم از کم 70 حلقوں اور صوبائی اسمبلی کے 65 حلقوں نے الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 20 (3) کے قانونی تقاضے پر عمل نہیں کیا۔

قومی اسمبلی کے 70 حلقوں میں سے پنجاب میں سب سے زیادہ 28 حلقے ہیں جن کی آبادی میں 10 فیصد سے زائد کا فرق ہے۔ اس کے بعد خیبرپختونخوا میں 21، سندھ میں 18 اور بلوچستان میں 3 حلقے ہیں۔صوبائی اسمبلی کے 65 حلقوں میں سے جو قانونی تقاضے پورے نہیں کرتے۔

خیبر پختونخوا میں 20، پنجاب کے 18، بلوچستان کے 16 اور سندھ کے 11 حلقے ہیں۔

فافن صرف قومی اسمبلی کے صرف 214 حلقوں اور صوبائی اسمبلی کے 399 حلقوں کے فرق کا اندازہ لگا سکا جن کی آبادی کا تعین کیا جا سکتا ہے کیونکہ انتخابی حلقوں کی حتمی فہرست (فارم 7) میں حلقوں کی آبادی کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔

فافن کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے الیکشن کمیشن ووٹرزرجسٹریشن میں تفریق کے حوالے سے تحقیقات کر کے وجوہات معلوم کرے۔

 


متعلقہ خبریں