پانامہ کیس تحقیقات پر ایک ارب خرچ، نواز شریف اور مریم نواز باعزت بری


اسلام آباد(زاہد گشکوری، ہیڈ ہم انویسٹی گیشن ٹیم) وفاقی حکومت نے گزشتہ اٹھ برس میں 50 بڑے کرپشن کیسز کی تحقیقات پر لگ بھگ چھ ارب روپے خرچ کیے۔

ہم انویسٹگیشن ٹیم کی تحقیقات کے مطابق نیب نے مجموعی طور پر اس اٹھ سال میں 27 ارب روپے خرچ کیے، جب کہ نیب کی دستاویزات کیمطابق ان میگا کرپشن میں ملوث ہائی پرفائل شخصیات پر لگ بھگ 900 ارب روپے کا قومی خزانہ کومبینہ نقصان پہنچانے کا الزام تھا۔ نیب کے نئے قانون کی روشنی میں چند بڑے کیسوں پہ فیصلہ نیب کے خلاف بھی آچکا ہے۔

2017 سے آج نواز شریف کی بریت تک پاناما کیس تحقیقات پر سرکار کے لگ بھگ ایک ارب سے زائد کے اخراجات آئیں۔ نیب، ایف ائی اے، مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں، غیرملکی فرم کی خدمات اور ایسٹ ریکوری یونٹ ان اٹھ سالوں میں نہ کسی بڑے کو سزا دلوا سکا نہ ہی ایک پائی رقم وصول ہوئی۔

50 ہائی پروفائل کیسز میں نامزد 80 فیصد ملزمان نے ضمانت حاصل کرلی، انکے کیس ختم ہوگئے، جبکہ 5 فیصد بری بھی ہوگئے۔ دوسری جانب نیب نے 55 فیصد بڑی مچھلیوں کے خلاف انکوائریاں بھی بند کردیں۔

ہم انویسٹگیشن ٹیم کی تحقیقات کے مطابق وزات قانون 24 احتساب عدالتوں کے 69 ججز اورعملےکیلئے 8 سال میں 80 کروڑ روپے جاری کیے۔ ایسٹ ریکوری یونٹ اخراجات کی مد میں 17 کروڑ روپے کھا چکا، جبکہ زرائع کا دعوی ہے کہ نیب اور ایسٹ ریکوری یونٹ ٹیموں نے نے 41 سے زائد غیر ملکی دورے کئے۔

ایسٹ ریکوری یونٹ اور نیب کی ٹیموں نے بیس کروڑ روپےکے سرکاری خرچ پر امریکہ ،برطانیہ، یو اے ای ،چین اور سوئٹزرلینڈ کے دورے کیے لیکن کامیابی نہیں ملی۔

علاوہ ازیں نیب نے 2018-19 کے بجٹ میں سرکار سے 2ارب 23کروڑ روپے حاصل کیے، جبکہ نیب نے 2019-20کے بجٹ میں سرکار سے 4ارب 24کروڑ روپے حاصل کیے۔ اس کے علاوہ نیب نے 2020-21کے بجٹ میں حکومت سے 5ارب 8کروڑ روپے حاصل کیے۔

جبکہ نیب نے 2020-21 میں حکومت سے 50 کروڑ روپے کی اضافی گرانٹ بھی حاصل کی۔ نیب نے 2021-22کے بجٹ میں حکومت سے 5ارب 13کروڑ روپے جبکہ 2022-23 نیب بھی پانچ ارب سے زائد حاصل کیے۔

ہم انویسٹگیشن ٹیم کی تحقیات کے مطابق 95 فیصد ملزمان نے 37 دن جسمانی ریمانڈ پر نیب کسٹڈی اور 130دن جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں گزارے۔ تمام ملزمان نے مجموعی طور پر 1650 دن نیب کے ریمانڈ پر گزارے اور ان پر 27کروڑ روپے قومی خزانے سے خرچ کیے گئے۔

ان ہائی پروفائل ملزمان نے2018 سے ابتک مجموعی طورپر 5 ہزار 900 دن مختلف جیلوں میں گزارے۔

جیلوں اور عدالتوں میں پیشی کے اخراجات کی مد میں ان ملزمان پر لگ بھگ 30 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ ملزمان پر کیے گئے اخراجات کا تخمینہ نیب، جیل انتظامیہ، عدالتوں اور محکمہ پولیس سے حاصل کی گئی معلومات سے لگایا گیاہے۔

نیب نے 2017سے ابتک 250 سے زائد موجودہ اور سابقہ اراکین پارلیمان کے خلاف کیسز کی تحقیقات کیں۔ نیب نے قومی خزانےکو 700 ارب روپے کا نقصان پہنچانےوالےافراد کے خلاف 513 ریفرنسز، انوسٹی گیشنز،انکوائریز اور شکایات پر کام کیا۔

چئیرمین نیب نے خصوصی سیل میں 12 آفیسرزاور 26 افراد پر مشتمل اسپورٹنگ اسٹاف کو ان کیسز پر تعینات کیا۔ خصوصی سیل کے افسران اور اسپورٹنگ اسٹاف کی تنخواہوں کی مد میں 8کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔

ایک موقع پر دو مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں بھی ان کیسز کے لئے تشکیل دی گئیں جن پر 2کروڑ روپے اخراجات آئے، لگ بھگ 7کروڑ روپے کے اخراجات پراسیکیوشن ٹیم پر بھی کیے گئے۔

نیب انٹیلی جنس ونگ اور آپریشنل ونگ نے بیرون ملک خاص طور پر برطانیہ اور یواے ای سے معلومات کے لئے بھی لگ بھگ ایک کروڑ روپیہ خرچ کیا، نیب کی فرانزک لیب فیک ٹرانزیکشنز کے جائزے کے لئے استعمال ہوئی اس پر 2 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔

 

نیب نے کون کون سے سیاسی رہنما کو کتنے دن زیر حراست رکھا؟

آصف علی زرداری 9 جون 2019 سے 11 دسمبر 2019 تک 68 دن مبینہ جعلی اکاونٹس کیس میں جیل اور نیب کی کسٹڈی میں رہے، سابق صدر کی بہن فریال تالپور56نیب کی کسٹڈی اور 113 دن جیل میں رہیں، فریال کو 17 دسمبر2019 میں ضمانت پر رہا کیا گیا، سابق صدر اور ان کی بہن 54 ارب روپے کے مبینہ جعلی اکاونٹس کیس میں ملوث قرار دیے گئے۔

سپریم کورٹ کی طرف سے 2017میں نیب کو بھیجے گئے اس کیس پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی 8کروڑ روپے خرچ کرچکی۔

شہباز شریف نے 2018-19 اور 2020-21 میں 293 دن نیب کسٹڈی اور جیل میں گزارے، حمزہ شہباز نے جون 2019 سے فروری 2021 تک 697 دن جیل اور نیب کسٹڈی میں گزارے۔

شہباز شریف خاندان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات، آشیانہ اقبال ہاوسنگ اسکیم ، چوہدری شوگر ملزاور25ارب روپے کی منی لانڈرنگ کیسز بنائے گئے۔ اس دوران نیب ،ایف آئی اے اور اے آریو کے 13حکام نے برطانیہ کے 4دورے معلومات کے حصول کے لئے کیے۔

برطانیہ کے ان 4دوروں پر ان حکام نے 3کروڑ 40لاکھ روپے خرچ کیے، نیب نے شہباز شریف خاندان کے خلاف کیسز میں 15 انوسٹی گیشن آفیسرز، پراسیکیوٹر، اسپیشل پراسیکیوٹر مقرر کیے اور لگ بھگ 14 کروڑ روپے خرچ کیے، شہباز شریف اور حمزہ کی پیشیوں کے موقع پر اسپیشل سیکیورٹی دستوں، بلٹ پروف گاڑیوں اور فیول کی مد میں 3 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔

نیب نے راجہ پرویز اشرف، بابر اعوان،قمر الاسلام ، میر شکیل الرحمان اور طیبہ فاروق وغیرہ کے خلاف کیسزپر25کروڑ 40لاکھ روپے خرچ کیے۔

راجہ پرویز اشرف، بابر اعوان،قمر الاسلام ، میر شکیل الرحمان اور طیبہ فاروق نیب کیسز میں باعزت رہاہوگئے۔ نیب نے تین درجن سے زائد ہائی پروفائل کیسز پر 32کروڑ روپے خرچ کیے اور یہ کیسز انکوائریز اور انسٹی گیشن کے بعد بند کردیے گئے۔

سابق وزیراعظم تحریک انصاف کے چیرمین کیخلاف القادر ٹرسٹ کیس میں دس کروڑ روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیرمین سو دن سے زائد جیل میں ہیں۔

نیب نے خواجہ آصف کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں 3کروڑ 50لاکھ روپے خرچ کئے، خواجہ آصف 29دسمبر 2020سے 23جون 2021تک 179دن نیب کسٹڈی اور جیل میں گزارے۔

خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کے خلاف کیسز میں 7کروڑ روپے خرچ کیے گئے، خواجہ برادران نے2 فروری 2019 سے 17مارچ 2020تک 404دن نیب کسٹڈی اور جیل میں گزارے۔

مریم نواز نے چوہدری شوگرملزاور پاناما کیس میں 47دن نیب کسٹڈی اور 39دن جیل میں گزارے۔ مریم نواز کے خلاف کیس میں نیب نے لگ بھگ 3کروڑ روپے خرچ کیے۔

نیب نے سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کے خلا ف کیسز میں 3کروڑ 50لاکھ روپے خرچ کیے۔

پیپلزپارٹی رہنما شرجیل میمن مبینہ کرپشن کیس میں 545دن جیل میں رہے، نیب نے سابق پٹرولیم منسٹر عاصم حسین کے خلاف کیسز میں 16کروڑ وپے خرچ کیے وہ 470دن نیب کسٹڈی اور جیل میں رہے۔

نیب نے عاصم حسین اور شرجیل میمن کے خلاف کیسز میں گزشتہ 4سال میں کروڑ روپے خرچ کیے۔ نیب نے سید خورشید شاہ کے خلاف کیس میں 10کروڑ 80لاکھ روپے خرچ کیے وہ 763دن نیب کسٹڈی اور جیل میں رہے۔

نیب نے ن لیگ کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کے خلاف کیس میں 3کروڑ 50لاکھ روپے خرچ کیے ،وہ 64دن نیب کسٹڈی اور جیل میں رہے۔

نیب نے آئی پی پی کے صدر علیم خان کے خلاف کیس میں 7کروڑ روپے خرچ کیے ، وہ 6فروری 2019سے 15مئی 2019تک نیب کسٹڈی اور جیل میں رہے۔

نیب نے 2بیورو کریٹس فواد حسن فواد اور احد چیمہ کے خلاف کیسز میں 6کروڑ 90لاکھ روپے خرچ کیے۔ فواد حسن فواد 586دن نیب کسٹڈی اور جیل میں رہے۔

احد چیمہ 616دن نیب کسٹڈی اور جیل میں رہے، دونوں باعزت بری ہوئے، معاملے پر نیب ،وزارت قانون اور وفاقی حکومت کا موقف لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔


متعلقہ خبریں