ملک میں ٹیکس نظام میں شفافیت لانے کیلئے قومی ٹیکس اتھارٹی بنانے کا فیصلہ

tax

آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پر عملدرآمد کردیا گیا


اسلام آباد (شہزاد پراچہ) نگران وفاقی حکومت نے ملک میں ٹیکس نظام میں شفافیت لانے کیلئے قومی ٹیکس اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق نگران حکومت نے ملک میں ٹیکس کے شعبے میں ادارہ جاتی اصلاحات لانے کیلئے ایک فریم ورک تیار کرلیا ہے جس کے تحت ٹیکس کے محکمے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔

ذرائع کے مطابق ٹیکس نظام میں آسانی اور شفافیت لانے کیلئے ایف بی آراور صوبائی ٹیکس اتھارٹیز کو ضم کرکے قومی ٹیکس اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق کسٹمز کے معاملات چلانے کیلئے ایک بورڈ تشکیل دیاجائے گا،اس بورڈ میں مختلف وزارتوں کے سیکرٹریز بشمول وزارت خزانہ، وزارت تجارت، وزارت داخلہ، وزارت قومی تحفظ خوراک اور وزارت صنعت و پیداوار بلحاظ عہدہ شامل ہوں گے، ذرائع کے مطابق محکمہ کسٹمز میں ممبر اپریزمنٹ کی نئی پوسٹ تخلیق کی جائیگی۔

ذرائع کے مطابق ٹیکس پالیسی کے لئے ایک الگ محکمہ ہوگا جو وزارت خزانہ کے ماتحت ہوگا یہ محکمہ ٹیکس کے بارے میں پالیسز تجویز کرے گا جس پرعملدرآمد کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ وزارت خزانہ کرے گی۔

وفاقی کابینہ ، حج پالیسی 2024ء میں ترمیم ، بینکوں کے ونڈ فال منافع پر 40 فیصد ٹیکس لگانے کی منظوری

ذرائع کے مطابق تجویز کئے گئے فریم ورک کے مطابق ٹیکس سسٹم میں ودہولڈنگ ٹیکس کا نیا ریجیم متعارف کرایا جائے گا۔ تجویز کے مطابق ریٹیلر سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا،حکام کا خیال ہے کہ ریٹیلر سیکٹر کا جی ڈی پی میں حصہ اٹھارہ فیصد ہے جبکہ یہ سیکٹر صرف چار فیصد ٹیکس دیتا ہے اس لئے اس کو مکمل طور پر ٹیکس نیٹ میں لایاجائیگا۔

اس ضمن میں بنکوں کو پابند کیا جائیگا کہ وہ ریٹیلرز کے مکمل ڈیٹا فراہم کریں تاکہ ٹیکس نہ دینے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

ذرائع کے مطابق نئے اصلاحاتی فریم ورک کے تحت ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو وسعت دی جائیگی اور اس میں نئے سیکٹرز کو شامل کیا جائے گا، اس وقت تمباکو، یوریا، چینی کے شعبوں میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم لاگو ہے اس میں دیگر شعبوں کو بھی لایاجائے گا تاکہ ان شعبوں میں ٹیکس چوری کا خطرہ کم کیا جاسکے۔

اس کے علاوہ چینی سمیت دیگر بڑے صنعتی شعبوں کی پیداوار کی سمگلنگ کے خطرے کو کم یا ختم کرنے کیلئے الیکٹرانک انوائسنگ سسٹم لایاجائیگا، جس کے ذریعے پتہ چلایا جائے گا کہ فیکٹری سے نکلنے والا سامان کہاں گیا اور اس کو استعمال کرنے کا صارف کون تھا۔


متعلقہ خبریں