درخواستیں ناقابل سماعت،جلد بازی کی گئی،یہ صوبائی خود مختاری میں مداخلت ہے ،دو ججز کا اختلافی نوٹ


پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن سے متعلق از خود نوٹس کے فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا اختلافی نوٹ شامل ہے۔

سپریم کورٹ  کے 5 رکنی بینچ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن سے متعلق از خود نوٹس کیس کا فیصلہ سنادیا۔ فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا اختلافی نوٹ شامل ہے۔

اختلافی نوٹ میں ججز نے لکھا ہے کہ پہلے سے 2درخواستیں موجودتھیں ۔پہلے سےموجود درخواستوں کے باوجود ان درخواستوں کو جلدی سننے کی کوشش کی گئی۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ظہور الہٰی اور بے نظیر بھٹو کیس کے فیصلے اس بارے میں واضح ہیں۔جب ایک درخواست موجود ہو تو پھر اس کیس میں جلدی نہ ہو۔از خود نوٹس لینا نہیں بنتا۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ کا پنجاب اور کے پی کے میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم

اختلافی نوٹ کے مطابق ہائیکورٹس میں اسی طرح کا کیس زیر سماعت ہے۔90روز میں انتخابات کرانے کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔سپریم کورٹ ایک ایپکس کورٹ ہے اس کو ان معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

اختلافی نوٹ  میں لکھا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی ایسی مداخلت صوبائی خود مختاری میں مداخلت ہے۔23فروری کو جسٹس یحییٰ آفریدی اور اطہرمن اللہ نے جو نوٹ دیا اس پر ہم مطمئن ہیں۔آرٹیکل 184 تین کے تحت یہ کیس قابل سماعت نہیں۔

اختلافی نوٹ میں ہدایت کی گئی ہے کہ ہائیکورٹس3 روز کے اندر کیس کا فیصلہ کریں۔پشاور اور لاہور ہائیکورٹ تین دن میں انتخابات کی درخواستیں نمٹائیں۔جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹس سے اتفاق کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے  الیکشن ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پنجاب اورخیبرپختونخوا اسپیکرز کی درخواستیں منظور کرلیں۔سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے۔


متعلقہ خبریں