مریم نوازاورکیپٹن ریٹائرڈ صفدرایون فیلڈ ریفرنس میں بری


 اسلام آباد ہائیکورٹ نے مریم نوازاورکیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ایون فیلڈ ریفرنس میں بری کردیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے  مریم نواز اور  کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں ایوان فیلڈ ریفرنس میں بری کردیا۔مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزائیں کالعدم قرار دے دی گئی ہیں۔ عدالت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ نیب مریم نواز کےخلاف کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اورکیپٹن (ر) صفدر کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی۔نیب پراسیکیوٹر نے پراپرٹیز کی رجسٹری کے دستاویزات عدالت میں پیش کیں۔جسٹس محسن اخترکیانی نے ریمارکس دیے کہ تفتیشی افسر نے جے آئی ٹی کی ساری رپورٹ لکھ دی، خود کیا تفتیش کی؟

یہ بھی پڑھیں:آج انصاف ہو گیا اور ہماری بےگناہی ثابت ہو گئی، مریم نواز

جسٹس عامر فاروق  نے کہا یہ دستاویزات پراسیکیوشن کا کیس کیسے ثابت کرتے ہیں؟ ان دستاویزات سے الزام کیسے ثابت ہوتا ہے؟ دیکھنا یہ ہے کہ کیا تفتیشی افسر نے دستاویزات پر کوئی تفتیش بھی کی؟ کوئی ایسی چیز ابھی سامنے نہیں آئی جو نواز شریف یا مریم نواز کا پراپرٹیز سے تعلق جوڑے۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا پراپرٹیز کی مالیت کا تعین کرنے والا کوئی دستاویز سامنے آیا؟ آپ کے پاس کوئی دستاویز ہے جس سے پراپرٹیز یا اپارٹمنٹ کی مالیت کا پتہ چلے؟جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاتفتیشی افسر کی رائے کو شواہد کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔جے آئی ٹی نے کوئی حقائق بیان نہیں کیے، صرف اکٹھا کی گئی معلومات دیں۔

جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ ان پراپرٹیز کی خریداری کے لیے کتنی رقم ادا کی گئی؟ آپ اس متعلق ڈاکومنٹ دکھائیں، زبانی بات نہ کریں۔کل کو یہ ساری چیزیں ججمنٹ میں آنی ہیں۔آف شور کمپنیوں نے اپارٹمنٹ کتنی قیمت میں خریدا؟جسٹس محسن اختر کیانی  نے کہا  پراسیکیوشن زبانی بیانات کے علاوہ کیا دستاویزات سامنے لائی ہے؟ نواز شریف کا اس کیس کے حوالے سے موقف کیا ہے؟

پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر عباسی نے جواب دیا کہ نواز شریف کا موقف تھا کہ ان کا اس پراپرٹی سے تعلق نہیں۔ عدالت نے استفسار  کیا کہ کیا 342 کے بیان میں مانا گیا کہ پراپرٹی کتنی میں خریدی گئی؟وکیل مریم نواز نے  عدالت کو بتایا کہ 342 کے بیان میں کہیں پر کوئی ذکر نہیں۔عدالت  نے استفسار کیا کہ کیا یہ وہ واحد اور بہترین دستاویز ہے جو کیس میں پیش کی گئی؟ آخری سماعت پر عثمان چیمہ نے کہا کہ مریم نواز کا کردار 2006 سے شروع ہوتا ہے۔ابھی آپ کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز کا کردار 1993 سے شروع ہوتا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہامریم نواز پراپرٹیز کی مالک ہیں یہ دستاویزات سے عدالت کو بتا دیں۔جسٹس عامرفاروق نے کہا پہلے خود کو تو واضح کر لیں پھر عدالت کو بتائیں،۔پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر عباسی نے کہا میں تین جملوں میں نیب کا سارا کیس عدالت کو بتا دیتا ہوں۔نواز شریف نے پبلک آفس ہولڈر ہوتے ہوئے مریم نواز کے نام پر لندن پراپرٹیز خریدیں۔

جسٹس عامر فاروق نے جواب دیا کہ جو چار جملے آپ نے بتائے ہیں یہی شواہد سے ثابت کر دیں، بات ختم۔جو متفرق درخواستیں دائر ہوئیں اس کے علاوہ نیب کے پاس کوئی کیس نہیں۔واجد ضیا کو پتہ چل گیا تھا کہ پراپرٹیز کی مالیت 5 ملین ڈالر تھی تو تفصیل لی جا سکتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ پراپرٹیز کی تفصیلات لینا بالکل بھی مشکل نہیں تھا، پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر نے بتایا کہ پراپرٹیز کی مالیت کا تعین متعلقہ نہیں تھا۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا یہ آپ بالکل غلط کہہ رہے ہیں کہ مالیت کا تعین غیرمتعلقہ تھا۔آپ نے تحقیقات کے بعد شوائد سے کیس بنانا تھا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ شریف فیملی کا موقف ہے کہ دادا نے پوتے کو پراپرٹیز دیں۔واجد ضیانے انہی کی متفرق درخواست کو اپنی رپورٹ کا حصہ بنا دیا۔تفتیشی افسر نے انکے اس موقف کو غلط ثابت کرنا تھا۔پراسیکیوشن نے یہ ثابت کرنا تھا کہ اصل ملکیت نواز شریف کی ہے یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ تفتیشی ایجنسی نے تفتیش کر کے حقائق سامنے لانے تھے۔وہ دستاویزات دکھا دیں کہ جن سے پراپرٹی ٹریل “یہ ہیں وہ ذرائع” غلط ثابت ہوں۔

یہ بھی پڑھیں:ایون فیلڈ ریفرنس: فریقین اپنا اپنا گولہ بارود اکٹھا کرلیں، فیصلہ کرنا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو  نیلسن اور نیسکول کمپنیز کی رجسٹریشن کی دستاویزات دکھا دیں۔جسٹس عامر فاروق  نے سوال کیا کہ کیا یہ تصدیق شدہ دستاویزات ہیں؟  وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ یہ تصدیق شدہ سرٹیفکٹ کی کاپی ہے۔

جسٹس عامر  فاروق نے کہا یہ تو تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پراپرٹیز کمپنیز کی ملکیت ہیں۔ پراسیکیوٹر نے کہا دستاویز میں لکھا ہوا ہے کہ کیئر آف ۔نیب پراسیکیوٹر نے پراپرٹیز کی رجسٹری کے دستاویزات عدالت میں پیش کردیئے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ملکیت کمپنی کی ہے،اب اس کمپنی کو لنک کریں۔، جسٹس عامر فاروق نے کہا یہ کیس تو 2006 سے شروع ہوتا ہے آپ پھر 1993 پر لے جاتے ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا شریف فیملی کی ایڈمشن کے مطابق انکے خلاف کیس 2006 میں شروع ہوتا ہے۔اگر انکی اپنی ایڈمشن نہ ہوتی تو پھر تو انکے خلاف کوئی کیس تھا ہی نہیں۔1993میں شریف فیملیز کا پراپرٹیز کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔

انہوں نے ریمارکس دیے ہیں مریم نواز کو بنیفشل اونر لکھنا ایک رائے ہے کوئی شواہد موجود نہیں۔نیب نے جو کیس بنایا ہے وہ تو مریم نواز کے خلاف ہے نواز شریف کے خلاف نہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا اگر مریم نواز کے خلاف کیس ہو بھی تو وہ پبلک آفس ہولڈر نہیں یہ کیس کیسے بنتا ہے؟ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر نے جواب دیا کہ مریم نواز نے نواز شریف کی اعانت کی ،  جسٹس عامر فاروق نے جواب دیا کہ شواہد سے بتا دیں کہ نواز شریف کا تعلق کیسے ثابت ہوتا ہے؟

انہوں نے کہا باتوں سے تو نہیں ہو گا، براہ کرم کوئی شواہد دکھا دیں، بار بار یہی کہہ رہے ہیں۔آپ کاکیس کچھ اور ہے اور آپ کے شوائد کچھ اور پیش کر رہے ہیں۔آپ کا کیس ہے کہ مریم نواز نے اپنے والد کی معاونت کی۔آپ ایک ثبوت سے دکھائیں کہ نواز شریف کیا کردار ہے۔آپ کو دکھانا ہے کہ نواز شریف کا کیس میں کردار ہے وہ ہونگے تو ہی مریم کا کردار آئے گا ۔مرکزی کیس اسٹینڈ کرےگا تو ہی مریم پرائمری ملزم ہونگیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ نیب لندن سے آئے دو دستاویزات کو شواہد کے طور پر پیش کر رہا ہے۔اس ڈاکیومنٹ پر تو دعویٰ ٰڈگری نہیں ہوتا، کریمنل کیس کیسے بن سکتا ہے؟

یہ بھی پڑھیں:مریم نواز کا پاسپورٹ درکار نہیں، نیب کا لاہور ہائی کورٹ میں جواب

نیب پراسیکیوتر نے جواب دیا کہ نیب کا کیس مختلف ہے، ہم شریف فیملی کے موقف کو درست تسلیم نہیں کرتے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہانیب کا کیس پھر صرف دو لیٹرز پر ہے جو وہاں سے آئے ہیں۔ان لیٹرز کے ذریعے نواز شریف کا تعلق کہیں دکھا دیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہااگر مرکزی کیس ثابت ہو گا تو پھر نیب کا تعلق آئے گا۔ جسٹس عار فاروق نے کہا نواز شریف کا تعلق نہیں تو پھر مریم نواز کے خلاف نیب کا کیس نہیں بنتا۔

سردار مظفر نے کہامریم نواز، نواز شریف کی پراپرٹیز کی بے نامی مالک تھیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہابے نامی پر نہ جائیں اس میں پھر آپ خود پھنس جائیں گے۔لافرم بھی بنیفشل اونر شپ کی بات کررہی ہے۔کمپنی کی ملکیت ہونا الگ بات ہے اس میں ڈائریکٹر ہونا الگ بات ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا2006سے12کے درمیان پراپرٹیز ان کمپنیز ملکیت تھیں یا نہیں، یہ کیسے پتہ چلے۔ جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ کیا آج کی تاریخ میں اس خط کی بنیاد پر مریم نواز ان پراپرٹیز کی بینیفشل اونر ہیں؟ پراسیکیوٹر نے جواب دیا ۔جی، آج بھی ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کیسے مالک ہیں کوئی دستاویز دکھا دیں۔یہ بھی بینفشل اونر کی بات ہو رہی ہے قانونی مالک کی نہیں۔سردار مظفر نے کہا 2017 میں بی وی آئی ایف آئی اے کی دستاویز کے مطابق وہ اب بھی بینفشل اونر ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا ۔ملزمان کا ایڈمیشن بھی موجود ہو تو بھی پراسیکیوشن کو اپنا کیس ثابت کرنا ہوتا ہے ۔شریف فیملی کا موقف ہے کہ پراپرٹیز 2006 میں شریف فیملی نے خریدیں۔شریف فیملی کے تسلیم کرنے کے باوجود نواز شریف کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہانیب ان دستاویزات کی بنیاد پر سارا کیس مریم نواز پر بنا رہا ہے ۔ جسٹس عامر فراوق نے ریمارکس دیے کہ نیب کے سارے کیس میں نواز شریف کا نام کہیں نہیں آ رہا۔بیٹی کے نام پر ہونے کا مطلب لازم نہیں کہ وہ باپ کی ہی ملکیت ہو۔

سردار مظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شریف فیملی نے خود بھی اپنے دفاع میں کوئی دستاویز پیش نہیں کی۔جسٹس عامرفاروق نے کہا وہ کیوں دستاویزات پیش کرتے، انکا تو کام ہی نہیں تھا، نیب نے ثابت کرنا تھا۔ جسٹس محسن اختر نے کہا انہیں تو خاموشی سے کھڑے رہنا چاہیے تھا بالکل کچھ بولنا ہی نہیں چاہیے تھا۔

یہ بھی پڑھیں:کون سال جرم ہے جو عمران خان پر ثابت نہیں ہوا، مریم نواز

جسٹس عامر فاروق نے کہا یہ اگر روسٹرم پر کھڑے ہو کر کہیں کہ پراپرٹیز ہماری ہیں پھر بھی پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے۔آپ کیس ثابت کرنے میں فیل ہوئے ہیں۔آپ نے اس کیس میں ایک شخص کو سزا دی ہے۔کیا ٹرسٹ ڈیڈ کی بنیاد پر بھی سزا ہوئی تھی؟

انہوں نے کہا کیپٹن (ر) صفدر کو ٹرسٹ ڈیڈ کی گواہی پر سزا دی گئی۔مان لیتے ہیں کہ یہ جعلی دستاویز ہے لیکن ساری پارٹیز مان رہی ہیں،ہو سکتا ہے دستاویز غلط ہو، بعد میں تیار ہوا ہو۔گواہ نے یہ شہادت دینی ہوتی ہے کہ یہ دستخط اسی بندے کے ہیں۔کیپٹن (ر) صفدر کو بطور گواہ سزا ہو سکتی ہے؟

عدالت نے دلائل  اور شواہد کا جائزہ لینے کے بعد  مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں ایون فیلڈ ریفرنس سے بری کردیا۔ اور ان کی سزائیں کالعدم قرار دے دیں ہیں۔


متعلقہ خبریں