سیلاب میں بیوی بچے محفوظ رہے، پوری زندگی کی جمع پونجی بہہ گئی

خیبرپختونخوا میں سیلاب کی تباہ کاریاں،23 افراد جاں بحق

فائل فوٹو


میرا گھر ، سامان ، اناج سارا بہہ گیا ،اینٹوں کے ڈھیر پر بیھٹا عبدالقادراپنی روداد بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گیا ۔

عبدالقادر ڈی آئِی خان حاجی مووہ کا رہاشی بھٹہ خشت میں کام کرنے والا مزدور تھا جس کی ڈیوٹی کی کوئی شڈول نہیں ہوتی۔ دہاڑی کر کے اپنا گزارا کرتا تھا مون سون بارشوں نے پہلے منہ سے نوالہ چھینا پھر سیلاب نے سر سے چھت چھین لیا ۔

عبدالقادر نے ہم نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب اچانک آیا گاوں میں اعلان ہوا گھر خالی کرنے تھے مجھے اپنے پانچ بچوں اور بیوی کو بچانا تھا ۔ قیامت کا سماں بن گیا تھا بچوں اور بیوی کو گھر سے نکالا تاہم باقی سب کچھ سیلاب اپنے ساتھ بہا کر لے گیا ۔

سیلاب آیا تو بے یار ومدد گار رہ گئے زمین پر سیلاب کا پانی اوپر سے بارش سے بھیگے بچے بیمار پڑ گئے ایک بچی کو سخت بخار ہوا بچوں کا حال دیکھ کر گھبراہٹ ہونے لگی اسمان کی طرف دیکھا اور اللہ سے مخاطب ہوا یا اللہ میں کیا کروں ؟ یہ الفاظ ادا کرتے ہی عبدالقادرچپ ہوگیا آنکھوں سے گرتے آنسوؤں میں درد کوٹ کوٹ کر بھرا نظر آنے لگا ۔

لمبی سانس کے بعد عبدالقادر دوبارہ اپنی کہانی بیان کرنے لگا ، حاجی مورہ کا علاقہ پورہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا میں بیمار بچی کو سینے سے لگا کرکسی انجان مدد کے انتظار میں تھا کہ ایک نوجوان پاس آیا بیمار بچی کو دیکھ کر ہمیں یہاں سے نکالا پہلے ہسپتال لے کر گیا ابتدائی طبی امداد اور پھر بچی کا علاج ہوا وہاں سے ہمیں گھر لے کر گیا کھانہ کہلایا کپڑے دیئے اور وہاں سے امدادی کیمپ منتقل کروایا ۔۔۔ عبدلخالق کی درد بھری کہانی میں اس نوجوان کا ذکر آیا تو اس کی چہرے پر امید کی ایک کرن نظر آئی ، ہم نیوز نے اس نوجوان کا پتہ لگایا اور اس سے بات کرنے کی کوشش کی۔۔۔

زبیر ڈی آئی خان کا رہاشی سرکاری سکول میں ٹیچر ہے اور فلاحی رضاکار کے طور پر کام کرتا ہے اس دن کے حوالے سے کہتا ہے کہ جب ہیمں پتہ چلا کہ سیلابی صورتحال نے شدت اختیار کر لی ہے تو ہم گھر سے نکل گئے راستے دلخراش مناظر دیکھنے کو ملے عبدالقادر کی بچی پر نظر پڑی تو بچی کی حالت بہت تشویش ناک تھی خدا نا خواستہ ٹائم پر اگر علاج نہ ہوتا تو بچی کی حالت مزید بگھڑ جاتی۔

ہم نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس دن جس کو بحی دیکھا سب کی کہانی ملتی جلتی ہے جتنے بھی لوگ ملے سب بے گھر ہوچکے تھے ہم اپنے طور پر لوگوں کو کیمپوں میں لے جاتے گئے کیپموں میں موجود لوگ اب خوش ہیں تاہم تمام بے گھر افراد کی یہی کہانیاں ہے جو عبدالقادرکی ہے۔

ڈی آئی خان کے مقامی لوگوں نے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی کافی مدد کی ہے لیکن حکومت کی جانب کئی جگوں پر خاطر خواہ انتظامت دیکھنے کو نہیں ملے ۔کیپموں میں کھانے پینے اور خیموں تک تو حکومت نے اپنا کردار ادا کی تاہم اب بحالی میں ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ جو لوگ بے گھر اور بے روزگار ہے ان کا مداوا ہو سکے۔

تین تحصلوں پر مشتمل ڈی آئِی خان کے تحصیل پروا کو سیلاب نے زیادہ متاثر کیا ۔

پی ڈی ایم رپورٹ کے مطابق اب تک ڈی خان میں سب سے زیادہ پینتیس افراد جاں بحق ہوچکے ہیں ۔اسی طرح 72 ہزار 331 گھر متاثر ہوئے جن میں 31 ہزار 569 گھر مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں اور 40 ہزار 762 گھروں کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔

سیلاب سے ڈی آئی خان میں 9 ہزار 197 جانور بھی ہلاک ہوئے۔ رہورٹ کے مطابق 35سکول بھی بے رحم پانی میں بہہ گئے ہیں اس کے ساتھ ۔سینکڑوں افراد کے روزگاربھی سیلابی پانی سے تباہ ہوچکے ہیں ۔

ڈی آئِی خان کے مقامی صحافی طارق زمان بیٹنی کے مطابق اب بھی کئِ علاقوں میں پانی کھڑا ہے لیکن لوگ بے خبر ہے جس بڑی وجہ مین سٹریم میڈیا تک رسائی نا ہونا ہے ۔

دوسری جانب ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے شریف حسین نے ہم نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ۔صوبائی حکومت نےسیلاب سے متاثرہ مکانات کے سروے کے لئے موبائل اپلیکیشن آئی ٹی بورڈ کے تعاون سے تیار کرلی گئی ہیں۔

متاثرہ علاقوں میں تباہ شدہ گھروں کا معاوضہ دینے کے لیے 15 ستمبر سے ایک مشترکہ سروے کا آغاز کیا گیا ہے۔

سروے میں ۔ضلعی انتظامیہ، سی اینڈ دبلیو ،ایریگیشن،پاکستان آرمی، متعلقہ تحصیلدار،ایجوکیشن مونٹررنگ اتھارٹی،آئی ایم یو/محکمہ صحت کے نمائندے شامل ہیں۔

ڈی جی پی ڈی ایم اے نے کہا کہ متاثرہ مکان کے تمام کوائف آن لائن درج کر کے تباہ شدہ گھر،شناختی کارڈاور دوسرے ضروری کاغذات کی تصاویر کو اپلوڈ کیا جاتا ہے سروے باقاعدہ طور پر ایک منظور شدہ ورک پلان کے تحت کیا جارہا ہے۔

متاثرہ گھروں کے معاوضے بینک آف خیبر کے ذریعے اے ٹی ایم اور چیک بکس کے ذریعے ادا کئے جائیں گے رقم مرحلہ وار متاثرین میں تقسیم کیا جائے گا اور جوشفافیت اور غیر جانبداری پر مبنی ہوگا۔جہاں بینک آف خیبر کا برانچ موجود نہیں وہاں اضافی برانچ اور عملہ تعینات کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔

ڈی جی پی ڈی ایم اے کہتے ہیں صوبائی حکومت کی جانب سے اس مون سون کے دوران مکمل تباہ شدہ گھروں کے مالکان کو اسپیشل پیکج کے تحت چار لاکھ روپے دئیے جائیں گے جبکہ جزوی نقصان کی صورت میں ایک لاکھ 60 ہزار روپے دئیے جائیں گے۔


متعلقہ خبریں