اسلام آباد: پاکستان میں شرح نمو 4.8 فیصد کے مقابلے میں 5.97 فیصد رہی ہے۔ یہ بات وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے پیش کردہ برائے مالی سال 22-2021 کی اقتصادی جائزہ رپورٹ میں کہی گئی ہے۔
قومی اقتصادی سروے کے اہم نکات: رواں مالی سال کے اہم اہداف حاصل، کچھ میں ناکامی
ہم نیوز کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال اور وفاقی وزیر برائے توانائی خرم دستگیر کے ہمراہ اقتصادی سروے جائزہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ پاکستان کا مسئلہ بدقسمتی یہ ہے کہ جب ہم ترقی کرتے ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں پھنس جاتے ہیں، رواں مالی سال میں مجموعی ملکی پیداوار میں شرح نمو 5.97 فیصد رہی، اس نئے تخمینے کے ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ آپے سے باہر ہو گیا اور ادائیگیوں کے توازن کا بحران آگیا۔
انہوں نے کہا کہ رواں برس ہماری درآمدات 76 سے 77 ارب ڈالرز کے درمیان ہو گی جو تاریخی اور جی ڈی پی کے تناسب سے بھی سب سے بڑا نمبر ہے، برآمدات میں اضافہ ہوا ہے لیکن صرف 28 فیصد ہوا جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ 45 ارب ڈالرز تک پہنچ گیا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ایک زمانہ تھا جب پاکستان کی برآمدات، درآمدات کے مقابلے نصف ہوتی تھیں جو اب صرف 40 فیصد رہ گئی ہیں، یہ ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے کہ ہم صرف 40 فیصد درآمدات کی ادائیگی برامدات سے کرسکتے ہیں جب کہ 60 فیصد کے لیے ہمیں ترسیلات زر اور قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں بار بار ادائیگیوں کے توازن کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کووڈ – 19 کے دوران جب دنیا بھر میں تجارت کم، پیٹرولیم مصنوعات، گیس سستی ہوگئی تھی اس دوران ادائیگیوں میں توازن آگیا تھا لیکن اس کے بعد جیسے ہی نمو کی اور وہی نسخہ اپنایا گیا تو ادائیگیوں کا توازن بگڑ گیا، بڑے عرصے کے بعد پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر سے کم ہو کر 9.6 ارب ڈالر کی سطح پر آگئے ہیں لیکن آئندہ پیر/ منگل تک چین سے 2 ارب 40 کروڑ ڈالرز ملنے کے بعد یہ دوبارہ 12 ارب ڈالر کی سطح پر آجائیں گے۔
پرتعیش اشیا کی درآمدات پر پابندی سے سماجی عدم توازن کا خاتمہ ہو گا، وزیر اعظم
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کی معاشی سمت سدھارنے کی ضرورت ہے تیل کی قیمت عالمی منڈی میں بہت بلند ہوچکی ہے جس کی وجہ سے ہمیں بھی قیمتوں میں 30/ 30 روپے اضافہ کرنا پڑا،ہمیں مشکل فیصلے لینے پڑے، ملک دیوالیہ ہونے کی طرف جارہا تھا اب ہم اس راستے سے ہٹ گئے ہیں، اب استحکام کے راستے پر گامزن ہیں اور جلد مستحکم نمو دیکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری نمو کے دو پہلو ہیں ایک وہ کہ جو مستحکم ہو جس میں بار بار کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، ادائیگیوں کا توازن خراب نہ ہو، رواں مالی سال جی ڈی پی کی شرح نمو 5.97 فیصد رہی لیکن ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی وجہ سے ادائیگیوں کے توازن کا مسئلہ آگیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں جامع نمو چاہیے، ہم غلطی یہ کرتے ہیں کہ سرمایہ کار طبقے کو تجارت آگے بڑھانے کے لیے مراعات دیتے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں یہ ہوتا ہے کہ امرا جب صنعتیں لگاتے ہیں، مراعات پاتے ہیں تو درآمدات بڑھ جاتی ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ اگر جامع نمو ہوگی، غریب اور متوسط طبقے کی قوت خرید بڑھا کر نمو کی جائے تو اس سے مقامی اور زرعی پیداوار بڑھے گی لیکن درآمدی بل نہیں بڑھے گا کیوں کہ امرا جب خرچ کرتے ہیں تو اس میں درآمدی اشیا زیادہ ہوتی ہیں جب کہ غریب شخص آٹے و دال وغیرہ جیسی چیزوں پر خرچ کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں 80 فیصد صنعتیں درآمدات اور مقامی فروخت کے لیے لگی ہوئی ہیں، برآمدات کے لیے نہیں لگیں، اس لیے کوشش ہوگی کہ اب زیادہ تر صنعتیں برآمدات کے لیے لگیں۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ چونکہ توانائی بہت مہنگی ہوگئی ہے اس لیے ہماری صنعتیں مقابلے کی دوڑ سے نکل گئی ہیں اور توانائی کی عدم فراہمی کی وجہ سے بند بھی ہوجاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دسمبر میں حکومت نے صنعتوں کو نصف گیس دینے کا اعلان کیا تھا جسے فروری میں مزید کم کردیا گیا تھا۔
برآمدات میں کراچی کے حصے کو دگنا کر سکتے ہیں: بلاول سے ملاقات میں تاجر برادری کا دعویٰ
ہم نیوز کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ اب ہم ہر صنعت کو گیس دے رہے ہیں لیکن اگر مسلم لیگ(ن) کے سابقہ دور میں جس طرح توانائی کے سودے کیے تھے اگر پچھلی حکومت کووڈ -19 کے دنوں میں اس جیسے سودے کرلیتی تو آج بجلی و پیٹرول کی مہنگائی میں شاید کمی ہوتی۔