میاں شہباز شریف پاکستان کے 23 ویں وزیراعظم منتخب ہو گئے، انہوں نے 174 ووٹ حاصل کیے، شہباز شریف کے مدمقابل تحریک انصاف کے امیدوار شاہ محمود قریشی تمام ارکان سمیت مستعفی ہو کر ایوان کا بائیکاٹ کر گئے۔
پینل آف چیئر ایاز صادق کی صدارت میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کے نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیےووٹنگ کرائی گئی۔ ایاز صادق نے اعلان کیا گیا کہ میاں شہباز شریف کو 174 ارکان نے ووٹ دیا جبکہ شاہ محمود قریشی کو کوئی ووٹ نہیں ملا۔
شہباز شریف کے وزیراعظم منتخب ہونے کا اعلان ہوتے ہی ایوان نعروں سے گونج اٹھا ،شہبازشریف نے آصف علی زرداری ،بلاول بھٹواوردیگررہنماوَں کی نشستوں پرجاکران کاشکریہ اداکیا۔
شہبازشریف نے وزیراعظم کی نشست سنبھال لی اور اپنے ساتھ والی کرسی پر پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو ساتھ بٹھا لیا۔
شہباز شریف نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد پہلا خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی،حق کامیاب ہوا اور باطل کو شکست ہوئی۔
شہباز شریف نے کہا کہ اس ایوان نے سلیکٹیڈ اور جھرلو کی پیداوار وزیراعظم کو گھر کا راستہ دکھا دیاہے، آج پاکستان میں روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 8 روپے اونچا گیا ہے،یہ عوام کے اس ایوان پر اعتبار کا نتیجہ ہے۔
نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کو مبارکباد دیتے ہیں کہ انہوں نے آئین شکنی کو ختم کیا۔
اس سے قبل ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی صدارت میں قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو انہوں نے رولنگ دی اور دھمکی آمیز خط کا ذکر کرتے ہوئے خط چیف جسٹس پاکستان کوبھیجوانے کا اعلان کیا۔
قاسم سوری نے کہا کہ ان کی رولنگ کو غیر آئینی قراردیاگیا،غیر ملکی مراسلہ زیر بحث لایا گیا اور اس کو سازش قرار دیاگیا ۔
ڈپٹی اسپیکر نے مراسلے کوایوان میں لہراتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا یہ قصور تھا کہ انہوں نے آزاد خارجہ پالیسی کی بات کی،کیا یہ ملک غلامی کرنے کے لیے بنایاگیا تھا؟
ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے کہا کہ وہ قومی اسمبلی کی طرف سے مراسلہ سپریم کورٹ کو بھیج رہے ہیں، مراسلہ ڈی کلاسیفائڈ کرنے کی اجازت وفاقی کابینہ نے دی ،میری طرف سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معذرت چاہتاہوں۔
ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے تحریک انصاف کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار شاہ محمود قریشی کو خطاب کی دعوت دی۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آئینی عمل نے اپنے اختتامی مرحلے کو پہنچنا ہے، آج انتخابی عمل ہوگا کوئی کامیاب ہوگا اور کوئی آزاد ہوگا،
شاہ محمود قریشی کی تقریر کے دوران اپوزیشن بنچوں سے ووٹنگ ووٹنگ کے نعرے لگائے جاتے رہے،
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ وزارت عظمیٰ کے انتخاب کا بائیکاٹ کرتے ہیں،اور ہم سب مستعفی ہونے کا اعلان کر رہے ہیں،پارٹی کے اجتماعی فیصلے کو سامنے رکھتے ہوئے مستعفی ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔
اس دوران قومی اسمبلی اجلاس کی صدارت کرنے والے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے بھی استعفیٰ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ وزیراعظم کے انتخاب کا حصہ بنوں۔
ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری اٹھ کر چلے گئے اور پینل آف چیئرایاز صادق نے قومی اسمبلی اجلاس کی صدارت سنبھال لی۔
خیال رہے کہ اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے شہباز شریف کو وزیر اعظم نامزد کیا گیا تھا جب کہ پی ٹی آئی کی جانب سے سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی امیدوار تھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سےاپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے تجویز کنندہ آصف علی زرداری اور تائید کنندہ بلاول بھٹو زرداری ہیں۔
جے یو آئی (ف) کی جانب سے مولانا اسعد محمود تجویز کنندہ اور تائید کنندہ شاہدہ اختر ہیں۔ بی این پی مینگل کی طرف سے اختر مینگل تجویز کنندہ اور آغا حسن بلوچ تائید کنندہ ہیں۔
باپ کی جانب سے خالد مگسی اور اسرار ترین تجویراور تائید کنندہ ہیں جب کہ ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور سید امین الحق تجویر کنندہ و تائید کنند ہ ہیں۔
پی ٹی ایم کی جانب سے محسن داوڑ اور علی وزیر تجویز کنندہ اور تائید کنندہ جب کہ امیر حیدر خان ہوتی اور شاہ زین بگٹی بھی تجویز کنندہ اور تائید کنندہ ہیں۔ سید خورشید شاہ ، سید نوید قمر، سردار آیاز صادق اور خواجہ سعد رفیق و دیگر بھی تجویز و تائید کنندگان میں شامل ہیں۔
ہم نیوز کے مطابق پی ٹی آئی نے قائد ایوان کے امیدوار کے لیے شاہ محمود قریشی کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔
مخدوم شاہ محمود قریشی کے تجویز کنندہ زین قریشی اورتائید کنندہ ظہور حسین قریشی ہیں ، ملک عامر ڈوگر تجویر کنندہ، علی محمد خان بھی تائید کنندہ میں شامل ہیں۔