بظاہر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے جا رہی تھی، ووٹنگ کے دن رولنگ آ گئی، چیف جسٹس


چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا ہے کہ بظاہر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے جا رہی تھی، جس دن ووٹنگ ہونا تھی اس دن رولنگ آ گئی۔

ڈپٹی سپیکرکی رولنگ کے خلاف ازخودنوٹس کیس کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس عدالت میں ایم کیو ایم ، جماعت اسلامی ، پشرون تحفظ موومنٹ ، راہ حق پارٹی نے درخواست دائر نہیں کی۔ یہ وہ جماعتیں ہیں جن کی کہیں نہ کہیں پارلیمان میں نمائندگی ہے۔

میں ازخود نوٹس کی ہمیشہ حمایت کی، شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ازخود نوٹس لیا۔ عدالت کو کہا گیا ڈپٹی سپیکر کی رولنگ بدنیتی پر مبنی اور غیرآئینی ہے، یہ بھی کہا گیا کہ آرٹیکل 5 کے ذریعے کسی کو غدار کہا گیا ہے، درخواست گزاروں نے عدالت سے آرٹیکل 95 اور 69 کی تشریح کی استدعا کی ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ کیا آئین پاکستان کا موازنہ بھارت، آسٹریلیا اور انگلینڈ کے آئین سے کیا جا سکتا ہے؟ وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔ یہ کیس سیاسی انصاف کی ایڈمنسٹریشن کا ہے۔

بابر اعوان نے کہا کہ کیس میں جس برطانوی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا وہ کیس میں لاگو نہیں ہوتا، کیا سندھ ہائوس اور آواری ہوٹل لاہور میں جو کچھ ہوا اسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟ اراکین اسمبلی کے کردار پر قرآن و سنت اور مفتی تقی عثمانی کا نوٹ بھی دوں گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں بتائیں اس کا بیک گراونڈ کیا ہے، آپ اس پر بات کریں ، آپ اسپیکر کے اقدامات کا دفاع ضرور کریں اس پر آپ کو خوش امدید کہتے ہیں ،کیا سپیکر کو اختیار ہے کہ ایجنڈے سے ہٹ کر ممبران سے مشاورت کے بغیر رولنگ دے؟ آپ ہمیں بتائیں کہ کیا سپیکر آئینی طریقہ کار سے ہٹ کے فیصلہ دے سکتا ہے،؟ کیا ڈپٹی سپیکر کے پاس ایسا میٹیریل تھا جو انہوں نے ایسی رولنگ دی؟ہمیں راستے نہ بتائیں ہم راستے ڈھونڈ لیں گے، اسپیکر نے کونسی بنیاد پر ایکشن لیا وہ ہمیں بتائیں۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کےخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروادی

سیکریٹ ایکٹ کے تحت کچھ باتیں کرنا نہیں چاہتا، خفیہ پیغام پر بریفننگ دی گئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ خفیہ پیغام پر کابینہ کو بریفننگ دی یا دفتر خارجہ میں اجلاس کو؟ بابر اعوان نے جواب دیا کہ کابینہ اجلاس میں خفیہ پیغام پر بریفننگ دی گئی۔

بابر اعوان نے لیٹر گیٹ پر ان کیمرہ سماعت کی استدعا کر دی کہا کہ کیا یہ معاملہ ان کیمرہ ڈسکس ہو سکتا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سے صرف واقعات کا تسلسل جاننا چاہ رہے ہیں، اٹارنی جنرل نے اس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مخل ہونے پر معذرت چاہتا ہوں، خارجہ پالیسی پر کسی سیاسی جماعت کے وکیل کو دلائل نہیں دینے چاہیے، خط کا معاملہ خارجہ پالیسی کا معاملہ ہے اس کو کوئی سیاسی پارٹی ڈسکس نہیں کرسکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم خارجہ پالیسی کے معاملات پر مداخلت نہیں کرسکتے۔

بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تمام شہریوں پر لازم ہے کہ وہ ریاست کے ساتھ loyal ہوں، جو باہر سے پاکستان آتے ہیں انہیں بھی وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو پاکستانیوں کو ہیں، دیگر ممالک کے آئین میں ایسے حقوق نہیں دیے گئے، آرٹیکل چار غیرملکی شہریوں کو بھی وہی حقوق دیتا ہے جو پاکستانیوں کے ہیں، دنیا کے کسی ملک میں غیرملکیوں کو ایسے حقوق نہیں دیے گئے، عدالت میں زیر سماعت مقدمہ بنیادی حقوق کا نہیں ہے، تمام شہریوں پر لازم ہے کہ ریاست کیساتھ وفادار رہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں بظاہر الزامات ہیں کوئی فائنڈنگ نہیں، کیا سپیکر حقائق سامنے لائے بغیر اس طرح کی رولنگ دے سکتا ہے؟ یہی آئینی نقطہ ہے جس پر عدالت نے فیصلہ دینا ہے، یہ بھی بتائیں کیا سپیکر آرٹیکل 95 سے باہر جا کر ایسی رولنگ دے سکتا ہے جو ایجنڈے پر نہیں، سپیکر کی رولنگ کا دفاع لازمی کریں لیکن ٹھوس مواد پر، نینشل سیکورٹی کونسل اجلاس کے منٹس کدھر ہیں، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ نے نتیجہ اخز کیا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے کس مواد پر اختیار استعمال کیا، عدالت کے سامنے حقائق کی بات کریں۔

یہ بھی پڑھیں: ڈپٹی سپیکرکی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ میں سماعت شروع

بابر اعوان نے کہا کہ سائفر سے نوٹس بنا کر فارن منسٹری کابینہ میٹنگ کو بریف کرتی ہے، میں ایک بریف بنا کر لایا ہوں جسے ان کیمرا سماعت میں دکھا سکتا ہوں،
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فارن پالیسی کا معاملہ ہے، میں چاہتا ہوں کہ یہ بات ایک پولیٹیکل پارٹی کی جانب سے نہ آئے، یہ رولنگ سے پڑھ دیں اس میں جو کچھ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا نکتہ بھی صحیح ہے، ہم بھی فارن پالیسی کے معاملات میں نہیں پڑنا چاہتے۔

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ مراسلے میں چار چیزیں سامنے آئیں، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت زیادہ تفصیلات نہیں دے سکتا، فارن آفس نے مراسلہ دیکھ کر وزیراعظم اور وزیر خارجہ کیساتھ میٹنگ کی، کابینہ کی میٹنگ میں متعلقہ ڈی جی نے مراسلے پر بریفننگ دی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی کابینہ کی میٹنگ کب ہوئی تھی؟ بابر اعوان نے کہا کہ کابینہ اجلاس کی تاریخ معلوم کرکے بتائوں گا، کیا کچھ باتیں ان کیمرا ہو سکتی ہیں؟ فارن آفس نے جو بریفننگ دی وہ عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فی الحال خط نہیں مانگ رہے، عدالت نے بابر اعوان کی ان کیمرا بریفنگ کی استدعا مسترد کر دی، فی الحال ایسا کچھ نہیں ہے کہ ان کیمرا سماعت کریں۔

بابر اعوان نے کہا کہ کہاں لکھا ہے کہ تحریک عدم اعتماد واپس نہیں لی جا سکتی؟ یہ کہاں لکھا ہے کہ سپیکر تحریک عدم اعتماد پر رولنگ نہیں دے سکتا؟ اگر کہیں لکھا نہیں ہوا تو اسے عدالت پڑھ بھی نہیں سکتی۔تحریک عدم اعتماد نمٹانے تک اجلاس موخر نہیں ہو سکتا، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا تحریک عدم اعتماد کو ووٹنگ کے علاوہ بھی نمٹایا جا سکتا ہے؟

بابر اعوان نے جواب دیا کہ پارلیمانی رولز کو ملا کر اور آرٹیکل 95 کیساتھ ملا کر ہی پڑھا جا سکتا ہے علیحدگی میں نہیں۔

بابر اعوان نے عدالت میں کہا کہ فیصلہ عدالت کی اس سائیڈ ہونا ہے یا اس سائیڈ ہونا ہے وہ سائیڈ جیت جائے گی۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ یہ کہنا چاھتے ہیں کہ ملک میں ڈیڈ لاک پیدا ہوجائے گا؟ بابر اعوان نے کہا کہ جی بلکل اس ساری صورتحال میں ملک میں ڈیڈ لاک پیدا ہوجائے گا۔ جو کچھ بھی ہوگا اس میں عوام متاثر ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: اقتدار کی حوس نے عمران خان کو ذہنی مفلوج کر دیا، شہباز شریف

جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ اس لئے آپ کو کہہ رہے ہیں کہ اپنے دلائل جلد مکمل کریں تا کہ ہم کوئی جلد فیصلہ کرسکیں۔

ایک وکیل نے کہا اب چھانگا مانگا نہیں رہا، اب سندھ ہاؤس اور آواری چلے گئے ہیں، جس ادارے کے اندر یہ ھارس ٹریڈنگ کی مشق ہو رہی وہ اصول اور ضابطے بتاتا ہے، ذوالفقار علی بھٹوکو آئین دینے کے بعد سولی پر لٹکایا گیا ، اس پر صدارتی ریفرنس اس عدالت میں زیر التوا ہے، اللہ اس ملک اور اپ پر راضی ہے راستہ صرف انتخابات ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے دلائل مکمل کر لیے اب صدر کے وکیل علی ظفر نے شروع کر دئیے۔

بیرسٹر علی ظفر نے عدالت میں کہا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سے دلائل کا آغاز کروں گا، آرٹیکل 69 عدالت اور پارلیمان کے درمیان حد مقرر کرتا ہے، آرٹیکل 69 آگ کی دیوار ہے جسے عدالت پھلانگ کر پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی، اگر عدالت میں ایک کیس چل رہا ہے تو پارلیمنٹ اس پر تبصرہ نہیں کرتی، عدالت بھی پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرتی، اس کیس میں اسپیکر کو بھی پارٹی بنایا گیا ہے، عدالت کی طرف سے کوئی بھی ڈائریکشن دائرہ اختیار سے تجاوز ہو گا۔ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیخلاف عدالت سے رجوع کرنا پارلیمنٹ میں مداخلت ہے، سپیکر کو دی گئی ہدایات دراصل پارلیمنٹ کو ہدایات دینا ہوگا جو غیرآئینی ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ پارلیمنٹ آئین کی خلاف ورزی کرے کیا تب بھی مداخلت نہیں ہو سکتی؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کیا غیرآئینی ہے اور کیا نہیں اس پر بعد میں دلائل دوں گا۔اس کیس میں بدقسمتی سے درخواست گزاروں نے سپیکر رولنگ کو چیلنج کیا، پارلیمنٹ کے استثنی کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا، سپیکر کو کیس میں فریق بنایا گیا ہے، پارلیمنٹ کے استحقاق کو آئین کے مطابق چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس مقبول باقر اپنے ریٹارمنٹ پر اداروں میں توازن کی بات کی تھی، باہمی احترام سے ہی اداروں میں توازن پیدا کیا جا سکتا ہے، ایوان سپیکر سے مطمئن نہ ہو تو عدم اعتماد کر سکتا ہے، سپیکر کی رولنگ کا جائزہ لیا تو سپیکر کا ہر فیصلہ ہی عدالت میں آئے گا۔

جسٹس جمال خان نے کہا کہ اسپیکر کی رولنگ کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟وکیل علی ظفر نے کہا کہ اسپیکر کی رولنگ کو ہاؤس ختم کر سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا آپکے مطابق اس کیس میں فورم اسپیکر کو ہٹانا تھا۔ علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک فیصلہ دے گی تو پارلیمان کا ہر عمل عدالت میں آجائے گا ۔

یہ بھی پڑھیں:اپوزیشن کی درخواست پر سپریم کورٹ کا فل کورٹ سماعت کرے، اپوزیشن کی استدعا

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمان اگر ایسا فیصلہ دے جس کے اثرات باہر ہوں تو پھر اپ کیا کہتے ہیں ؟ علی ظفر نے کہا کہ عدالت پارلیمان کے فیصلے کا جائزہ نہیں لے سکتی۔ عدالت پارلیمان کے باہر ہونے والے اثرات کا جائزہ لے سکتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اسپیکر کی رولنگ چیلنج نہیں ہوسکتی۔ جسٹس جمال خان نے کہا کہ آئین کے تحت ہر شہری اسکا پابند ہے۔کیا اسپیکر آئین کے پابند نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزاروں کے مطابق آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی ہے، درخواست گزار کہتے ہیں آئین کی خلاف ورزی پر پارلیمانی کارروائی کا جائزہ لیا جا سکتا ہے، عدالت اختیارات کی آئینی تقسیم کا مکمل احترام کرتی ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کا الیکشن اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج ہوا تھا، ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ ایوان کے آئینی انتخاب کو بھی استحقاق حاصل ہے۔

عدالت قرار دے کہ تحریک عدم اعتماد پارلیمانی کارروائی نہیں تو ہی جائزہ لے سکتی ہے، ووٹ کم ہوں اور سپیکر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا اعلان کرے تو کیا ہوگا؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ پارلیمانی مسائل تو ہو سکتے ہیں لیکن عدالت پارلیمنٹ پر مانیٹر نہیں بن سکتی۔

علی ظفر نے کہا کہ پارلیمنٹ کو اپنے مسائل خود حل کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا وزیراعظم کا انتخاب پارلیمانی کارروائی کا حصہ ہوتا ہے؟ وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 91 کے تحت وزیراعظم کا انتخاب پارلیمانی کارروائی کا حصہ ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ کسی بھی رکن اسمبلی کی اہلیت کا جائزہ عدالت لے سکتی ہے، پارلیمان کی کارروائی میں مداخلت کی حد کی تشریح عدالت نے کرنی ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ جب نظام تعاون نہ کریں تو انتظامی آفیسر اپنے اختیارات استعمال کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا نکتہ دلچسپ ہے کہ اسپیکر کی رولنگ غلط ہو تو بھی اسے استحقاق ہے، رولنگ کے بعد اسمبلی تحلیل کرکے انتخابات کا اعلان کیا گیا، عوام کے پاس جانے کا اعلان کیا گیا ہے، ن لیگ کے وکیل سے پوچھیں گے عوام کے پاس جانے میں کیا مسئلہ ہے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن میں جانے سے کسی کے حقوق کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اٹارنی جنرل کو سننے کے منتظر ہیں، ابھی نعیم بخاری کو بھی سنیں گے۔

نعیم بخاری نے کہا کہ میرا آج روزہ ہے، اجازت ہو تو میں کل دلائل دینا چاہتا ہوں، دلائل کے لیے زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے زیادہ دلائل قانونی نکات پر ہوں گے،کل دلائل دوں گا۔

سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کیخلاف سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس پر کل سماعت صبح جلدی کرینگے ، وزیر اعظم کے وکیل کل30 منٹ لیں گے۔


یہ فوری خبر ہے۔ مزید تفصیلات اور معاملے کے درست حقائق جاننے کے لئے اس صفحہ کو ریفریش کریں۔
متعلقہ خبریں