لاہور: آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں تھانوں کے ریکارڈز کمپیوٹرائزڈ کرنے کا خواب ادھورا رہ گیا۔ کمپیوٹرائزیشن کا بجٹ 16 کروڑ بانوے لاکھ سے بڑھا کر 19 کروڑ 46 لاکھ روپے کردیا گیا تھا لیکن رقم استعمال ہی نہیں کی گئی۔
’ہم نیوز‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق انسپکشن ٹیم کی مرتب کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ منصوبے کی دستاویزات میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
چیف سیکرٹری کی تشکیل دی گئی انسپکشن ٹیم نے نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ متعدد تھانوں میں انٹرنیٹ خرابی کا شکار رہا، اچھرہ پولیس اسٹیشن کا انٹڑنیٹ کنکشن دودن تک بند رہا۔ فون اور ای میل میں bugs (وائرس کی ایک قسم جو ڈیوائسز اور ایپلی کیشنز کو متاثر کرسکتا ہے)کی نشاندہی کی گئی مگر انسداد کے لیے کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
منصوبے کیلئے ہارڈویئرز کی ضروریات ہی پوری نہیں کی گئیں، تھانوں کویوپی ایس اور پرنٹرز ہی فراہم نہیں کیے گئے۔ تھانوں کی کمپیوٹرائزیشن کے منصوبے میں محکمہ جیل خانہ جات ، سیف سٹی اتھارٹی اور لاہور ہائی کورٹ میں کوئی رابطہ ہی نہیں رکھا گیا۔
انٹرنیٹ، ایس ایم ایس اور نادرا کے واجبات مختص بجٹ کی بجائے پنجاب پولیس کے بجٹ میں سے ادا کیے گئے۔ تھانوں کی کمپیوٹرائزیشن کے باوجود تھانوں میں حاضری اور ایف آئی آرکے اندراج کے لیے دوہرے سسٹم نصب کیے گئے ہیں۔
سسٹم ڈیزائن میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ منصوبے کی تکمیل کے لیے پراجیکٹ کوآرڈینیٹر کی خدمات ہی حاصل نہیں کی گئیں۔
’ ہم نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی عامر ذوالفقارنے بتایا کہ رپورٹ میں جن نقائص کی نشاندہی کی گئی ہے، ان پر کام کر رہے ہیں تاہم پولیس کے ڈیڑھ سو سالہ نظام کو بدلنے میں کچھ وقت تو لگے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب بھر کے 713 تھانوں میں فرنٹ ڈیسک قائم کر دئیے ہیں، متعدد اضلاع میں ایف آئی آر اور تفتیش کمپیوٹر پر درج کی جا رہی ہے۔