جرمنی میں اتوار 26 ستمبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں دو خواجہ سرا خواتین سیاستدانوں نے بھی نشستیں حاصل کی ہیں۔ ان دونوں کا تعلق ماحول پسند گرین پارٹی سے ہے۔
جرمنی میں 26 ستمبر کو عام انتخابات کا انعقاد ہوا جس میں ماحول پسند گرین پارٹی نے اپنی اب تک کی بہترین کارکردگی دکھاتے ہوئے 14.8 فیصد ووٹ حاصل کیے اور اس طرح اس بار کے الیکشن میں یہ تیسری کامیاب ترین پارٹی قرار پائی جو آئندہ مخلوط حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: جرمن انتخابات: ایس پی ڈی سب سے بڑی جماعت بن گئی
گرین پارٹی کی دو خواجہ سرا سیاستدانوں میں سے ایک کا تعلق جرمنی کے جنوبی صوبے باویریا کے شہر نیورمبرگ سے ہے۔ ان کا نام ٹیسا گانسیرر اور عمر 44 سال ہے جبکہ دوسری کی عمر 27 برس اور نام نائیک سلاویک ہے۔ ان کا تعلق مغربی صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا سے ہے۔
ٹیسا گانسیرر نے خبر رساں ادارے رئٹرز سے بات کرتے ہوئے اسے نہ صرف گرین پارٹی بلکہ ٹرانس جینڈرز اور ان کے حقوق کی تحریکوں کے لیے بھی ” تاریخی فتح‘‘ قرار دیا۔
ان کے مطابق الیکشن میں ان کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ جرمنی ایک کھلا اور روادار معاشرہ ہے۔ ٹیسا گانسیرر 2013 ء میں باویریا کی صوبائی پارلیمان میں پہلی مرتبہ منتخب ہوئی تھیں اور 2018 ء میں پہلی بار وفاقی پارلیمان کی ایک کمیٹی میں خدمات انجام دینے والی پہلی ٹرانسجنڈر کے طور پر سامنے آئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: جرمنی میں مخلوط حکومت بننے کا امکان
نائیک سلاویک نے اس بار کے الیکشن میں وفاقی پارلیمان مپں ایک نشست حاصل کرنے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی کامیابی کے بارے میں انسٹاگرام پر ایک پیغام میں تحریر کیا اور کہا ہے کہ میں اب تک اس امر کا یقین نہیں کر پائی۔ سلاویک نے جرمن معاشرے سے ‘ہوموفوبیا اور ٹرانسفوبیا‘ کے خاتمے کے لیے ایک ایکشن پلان پر زور دیا۔
جرمنی میں اس سے پہلے وفاقی پارلیمان میں صرف ایک ٹرانس جینڈر بطور رکن پارلیمان رہا ہے۔ جس کا نام کرسٹیان شینک تھا۔