اراکین کی جانب سے انتقامی کارروائیوں اور مظالم کی تحقیقات کرائیں گے، طالبان


طالبان نے اپنے اراکین کی جانب سے کی جانے والی انتقامی کارروائیوں اور مظالم کی رپورٹس کی تحقیقات کرانے کا عندیہ دے دیا ہے۔

طالبان کے  ایک عہدیدار نے خبر رساں ادارے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہوں گے اور وہ اراکین کی جانب سے کی جانے والی انتقامی کارروائیوں اور مظالم کی رپورٹس کی تحقیقات کریں گے۔

بی بی سی کے مطابق نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرنے والے عہدیدار نے مزید کہا کہ طالبان نے آئندہ چند ہفتوں کے اندر افغانستان پر حکمرانی کے لیے ایک نیا فریم ورک متعارف کرانے کا منصوبہ بنایا ہے۔

طالبان عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا ’طالبان کے قانونی، مذہبی اور خارجہ پالیسی کے ماہرین اگلے چند ہفتوں میں ایک نیا حکومتی فریم ورک پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘

طالبان نے افغانستان پر قبضے کے بعد سے ایک اعتدال پسند تاثر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

مزید پڑھیں: افغان طالبان کا امریکی ہتھیاروں پر قبضہ

تب سے کچھ افغانوں اور بین الاقوامی امدادی اور وکالت گروپوں کے مطابق احتجاج کرنے والوں کے خلاف سخت جوابی کارروائی کی جا رہی ہے، اور ایسے لوگوں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے جو حکومتی عہدوں پر فائز رہے ہیں، طالبان پر تنقید کرتے تھے یا امریکیوں کے ساتھ کام کرتے تھے۔

طالبان عہدیدار نے کہا کہ ہم نے عام شہریوں کے خلاف مظالم اور جرائم کے کچھ واقعات کے متعلق سنا ہے ’اگر طالبان (ارکان) امن و امان کے لیے یہ مسائل پیدا کر رہے ہیں تو ان کی تحقیقات کی جائیں گی۔‘

انہوں نے مزید کہا ’ہم شہریوں میں گھبراہٹ، تناؤ اور اضطراب کی کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ طالبان جوابدہ نہیں ہوں گے، لیکن ایسا نہیں ہوگا۔‘

طالبان نے 1996 سے 2001 تک افغانستان پر حکومت کی ہے اور اس وقت انتہائی سخت گیر پالیسیوں پر عمل پیرا رہے تھے۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد القاعدہ کو پناہ دینے پر طالبان کو 2001 میں امریکی قیادت والی افواج نے اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا۔

حکومت اور امریکیوں کے ساتھ کام کرنے والے افراد نے طالبان کے مسلح بندوق برداروں کی جانب سے گھر گھر تلاشی کے دوران ان سے چھپنے کی خوفناک کہانیاں سنائیں ہیں۔


متعلقہ خبریں