اسکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا کے چرچ گرے فرائرز کرک کو ایک بوبی نامی ایک وفادار کتے کی کہانی کی وجہ سے شہرت حاصل ہے مگر اس نے سکاٹش تاریخ میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے اور کئی ادبی کہانیوں نے یہاں سے جنم لیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق مشہورِ زمانہ ناول سیریز ہیری پوٹر کی مصنفہ جے کے رولنگ کے مطابق اپنے ناولز کے کئی کرداروں کے ناموں کا خیال انھیں اس چرچ کے ساتھ موجود قبرستان میں کتبوں کو دیکھ کر آیا تھا۔
اس چرچ کی تاریخ کے چند نمایاں باب یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔ چرچ نے اپنی 400 ویں سالگرہ مکمل ہونے کی خوشی میں کئی تقریبات کے سلسلے کا اعلان کیا ہے۔
گرے فرائرز بوبی کی کہانی
گرے فرائرز بوبی کی کہانی 19 ویں صدی کے دوسرے حصے میں اس وقت لوگوں کی توجہ پانے لگی جب وہ ایڈنبرگ میں ایک سلیبریٹی بن گیا۔
کہا جاتا ہے کہ اس کتے نے گرے فرائرز چرچ کے احاطے میں اپنے مالک جون گرے کی قبر پر 14 سال تک پہرہ دیا تھا۔
سنہ 1872 میں اپنی موت تک یہ کتا اس قبر پر سوگ میں رہا اور اب اسے اسی قبرستان میں دفن کر دیا گیا ہے۔
اس کہانی پر کتابیں لکھی جا چکی ہیں، فلمیں بنائی جا چکی ہیں اور یہاں موجود اس کے مجسمے کو دیکھنے کے لیے ہر سال ہزاروں سیاح آتے ہیں۔
اس قدر لوگوں نے اس مجسمے کی ناک پر ہاتھ پھیرا ہے کہ اب پینٹ گھس کر اتر گیا ہے اور نیچے موجود تانبہ نظر آتا ہے۔
جے کے رولنگ بھی یہاں سے متاثر ہوئیں
ہیری پوٹر ٹورز میں اب سیاحوں کو تھامس رڈل کی قبر پر لے جایا جاتا ہے۔
بی بی سی کے مطابق یہ قبرستان ہیری پوٹر کے مداحوں کے لیے بھی ایک پسندیدہ جگہ ہے کیونکہ سیریز کی مصنفہ جے کے رولنگ نے انکشاف کیا تھا کہ قبروں پر موجود کتبوں سے انھیں چند کرداروں کے ناموں کا خیال آیا تھا۔
انھوں نے اس چرچ کے قریب موجود ایلیفینٹ ہاؤس کیفے میں اپنے ناول کے کچھ حصے بھی لکھے تھے۔
سیاح اب سنہ 1806 میں مرنے والے تھامس رڈل اور سنہ 1802 میں ٹرینیڈاڈ میں 26 سال کی عمر میں ہلاک ہونے والے ان کے بیٹے تھامس کی قبر کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔
ان کے ناموں سے ہی جے کے رولنگ کو ٹام رڈل کا نام ملا جو کہ سیریز میں لارڈ وولڈیمورٹ کا دوسرا نام ہے۔
قبرستان میں موجود تھامس رڈل کے کتبے سے ٹام رڈل کا نام جے کے رولنگ کے ذہن میں آیا جو کہ سیریز میں لارڈ وولڈیمورٹ کا نام ہے.
سکاٹ لینڈ کے بدترین شاعر کی ساکھ رکھنے والے ولیم میکگوناگال بھی اسی قبرستان میں دفن ہیں۔ جے کے رولنگ نے اس نام کو ہوگورٹس کے گریفینڈر سکول کی سربراہ پروفیسر منروا میکگوناگال کے نام کے لیے استعمال کیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ دوسرے کتبوں سے ایلیسٹر ’میڈ آئی‘ موڈی اور روفس سکریمجر کے ناموں کا خیال آیا۔ اس کے علاوہ یہ بھی افواہ ہے کہ ہیری کے والدین کی گوڈرکس ہولو میں آخری آرام گاہ کا خیال بھی اسی چرچ کے قبرستان سے آیا۔
قومی عہدنامہ
قومی عہد نامہ جس میں سکاٹ لینڈ پر حکمرانی میں زبردست تبدیلیوں کا مطالبہ کیا گیا تھا، اس پر اسی قبرستان میں فروری سنہ 1638 میں دستخط ہوئے تھے۔
یہ دستاویز بادشاہ چارلس اول کی متعارف کروائی گئی مذہبی اور سیاسی پالیسیوں کی مخالفت کے لیے بنائی گئی تھی۔
اس عہد نامے میں پروٹسٹنٹ فرقے کے ذیلی فرقے پریسبیٹیریئن کی اقدار پر قائم رہنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ عہد نامے کے شرکا نے بادشاہ کو سکاٹ لینڈ کے گرجا گھر کا روحانی پیشوا ماننے سے انکار کر دیا اور چرچ کی انتظام کاری کے ایپیسکوپل نظام کی مخالفت بھی کی۔
چارلس نے اسے غداری تصور کیا اور عہد نامے کے حامیوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا جس سے انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔
قبرستان کے ایک حصے کو سنہ 1679 میں قیدیوں کو رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا.
قبرستان کے کچھ حصے کو بعد میں عہد نامے کے حامیوں کے لیے جیل کے طور پر استعمال کیا گیا جنھیں اس سال حکومتی فورسز نے بوتھ ویل برج کے معرکے میں سنہ 1679 میں شکست دے دی تھی۔
چار ماہ سے زیادہ عرصے تک قیدیوں کو بغیر کسی سائبان کے یہاں رکھا گیا جبکہ ہر شخص کو دن میں صرف چار اونس ڈبل روٹی کھانے کی اجازت ہوتی تھی۔
کچھ قیدی مر گئے جبکہ کچھ دیگر پر غداری کا مقدمہ چلا کر انھیں سزائے موت دے دی گئی۔
وہ قبر جس کا خیال نہ رکھا گیا
قبرستان میں موجود بلڈی میکینزی کے مزار کو ان کے کاموں سے نفرت کی وجہ سے اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے.
قبرستان میں موجود بلڈی میکینزی کے مزار کو ان کے کاموں سے نفرت کی وجہ سے اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے.
سر جارج میکینزی وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے اس تحریک کے 1200 کارکنوں کو بوتھ ویل برج پر حراست میں لیا اور ان میں سے 400 کو اس قبرستان میں قید کر دیا۔
کہا جاتا ہے کہ میکینزی سکاٹش تاریخ کے آٹھ سالہ دورانیے میں تقریباً 18 ہزار افراد کے قتل کے ذمہ دار تھے۔ اس عرصے کو ’دی کلنگ ٹائم‘ کہا جاتا ہے۔
انھیں بعد میں ’بلڈی‘ میکینزی کے نام سے جانا جانے لگا اور نتیجے میں قبرستان میں موجود ان کے مزار کا ان کے کاموں سے نفرت کی وجہ سے خیال نہیں رکھا جاتا۔
سنہ 2003 میں 15 اور 17 سال کی عمر کے دو بچے عمارت کے پچھلے حصے میں موجود روشندان کے ذریعے اندر داخل ہوئے جسے اب سیل کر دیا گیا ہے۔
وہ اس تہہ خانے میں پہنچے جہاں تابوت رکھے ہوئے تھے، تابوتوں کو کھولا اور ایک کھوپڑی چرا لی۔
جب پولیس پہنچی تو اس وقت وہ گھاس پر کھوپڑی کے ساتھ فٹ بال کھیل رہے تھے۔
اچھے اور عظیم لوگ
اس چرچ کے ساتھ ہی ایک قبرستان بھی ہے
اس کے علاوہ یہ قبرستان ایڈنبرگ شہر کو استوار کرنے والی دیگر شخصیات کی آخری آرام گاہ بھی ہے۔
شاعر ایلن رامزے، نیو ٹاؤن کا نقشہ بنانے والے جیمز کریگ، انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے پہلے ناشر ولیم سمیلی اور سر والٹر سکاٹ کے والد والٹر سکاٹ بھی یہاں دفن ہیں۔
ماہرِ ارضیات جیمز ہوٹن، سکاٹش ماہر تعمیرات ولیم ایڈم اور جان ایڈم کی آخری آرام گاہیں بھی اسی قبرستان میں ہیں۔