دھوکے سے لیڈی ڈیانا کا انٹرویو: شہزادہ ولیم اور ہیری بی بی سی پر برہم

دھوکے سے لیڈی ڈیانا کا انٹرویو: شہزادہ ولیم اور ہیری بی بی سی پر برہم

1995 میں آنجہانی لیڈی ڈیانا کے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی پر نشر ہونے والے متنازع انٹرویو کی انکوائری رپورٹ جاری کردی گئی ہے جس کے مطابق برطانوی صحافی مارٹن بشیر نے ویلز کی شہزادی کا انٹرویو کرنے کے لیے ’دھوکے بازی‘ سے کام لیا۔

انکوائری رپورٹ کے مطابق انٹرویو صحافتی معیار سے گر کر کیا گیا، جس سے شاہی خاندان سے متعلق غلط بیانیہ قائم ہوا۔

اس تحقیقات رپورٹ کے جاری ہونے کے بعد لیڈی ڈیانا کے بیٹوں شہزادہ ولیم اور شہزادی ہیری نے بی بی سی پر شدید تنقید کی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق ایک بیان میں شہزادہ ولیم نے کہا کہ وہ یہ جاننے کے بعد ’ناقابل بیان‘ اداسی کا شکار ہیں کہ اس ادارے کی غلطیوں نے ان کی والدہ کی زندگی کے آخری سالوں کے دوران ان کی ذہنی حالت کو متاثر کرنے میں ’بڑا کردار‘ ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ انکوائری کے بعد پتہ چلا کہ بی بی سی اپنے صحافتی معیار سے گرگیا ہے۔ وہ “انتہائی غمزدہ ہیں” کہ لیڈی ڈیانا کو کبھی نہیں پتہ چل سکا کہ ان کا دھوکے سے انٹرویو کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ان کی والدہ کو نہ صرف ایک “بدمعاش رپورٹر” نے بلکہ بی بی سی کے ارباب اختیار نے (ازدواجی) زندگی میں  ناکام بنا دیا۔

شہزادہ ہیری نے اپنی ’غیر معمولی‘ والدہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’غیر اخلاقی اقدار پر بار بار عمل کرنے کے استحصالی اور تباہ کن رجحان ان کی والدہ کی جان لینے کا سبب بنا۔‘

مزید پڑھیں: شہزادہ ولیم پرکشش گنجے مرد قرار

انڈیپنڈنٹ اردو کے مطابق صحافی مارٹن بشیر نے 1995 میں بی بی سی کے لیے شہزادی ڈیانا کا ایک انٹرویو کیا تھا، جس میں ڈیانا نے اپنی شادی اور شاہی خاندان کے بارے میں کئی انکشافات کیے تھے۔

تاہم اس انٹرویو کو حاصل کرنے میں ’دھوکے بازی‘ کے الزامات کے بعد 18 نومبر، 2020 کو بی بی سی کے بورڈ نے لارڈ ڈائسن کو تحقیقات کرنے کی ذمہ داری سونپی جس کی رپورٹ 20 مئی کو تیار ہوئی۔

شہزادی ولیم کا کہنا تھا کہ وہ اس رپورٹ پر لارڈ ڈائسن اور ان کی ٹیم کے شکر گزار ہیں۔

انہوں نے کہا: ’میں اس بات کا خیر مقدم کرتا ہوں کہ بی بی سی نے لارڈ ڈائسن کی رپورٹ کو مکمل طور پر قبول کر لیا، جو کہ ایک تشویش ناک رپورٹ ہے کہ بی بی سی کے ملازمین نے میری والدہ سے انٹرویو لینے کے لیے جھوٹ بولا اور جعلی کاغذات حاصل کیے۔

’انہوں نے شاہی خاندان کے بارے میں بے ہودہ اور جھوٹے دعوے کیے جس نے میری والدہ کے خوف اور پریشانیوں میں اضافہ کیا۔

’انہوں نے پروگرام کے بارے میں تشویش اور شکایات کے حوالے سے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، میڈیا کو مکمل بات نہیں بتائی اور اپنی اندرونی تحقیقات میں جو معلوم ہوا اسے چھپایا۔‘

شہزادہ ولیم کا مزید کہنا تھا: ’میرے خیال میں جس دھوکے بازی سے یہ انٹرویو کرنے کی کوشش کی گئی وہ میری والدہ کی باتوں پر اثر انداز ہوا۔ یہ انٹرویو میرے والدین کے رشتے کو مزید خراب کرنے کی ایک بہت بڑی وجہ تھا جس سے کئی لوگوں کو تکلیف پہنچی۔‘

’اس بات کو جاننا بہت تکلیف دہ ہے کہ بی بی سی کی ناکامی نے ان کے خوف، پریشانی اور تنہائی میں بڑا کردار ادا کیا جو مجھے ان کے آخری برسوں میں یاد ہیں۔‘

انہوں نے بیان میں مزید کہا: ’مجھے جو چیز سب سے زیادہ افسردہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر بی بی سی نے 1995 میں اٹھائے جانے والے اعتراضات اور شکایات کی درست انداز میں تحقیق کی ہوتی تو میری والدہ کو معلوم ہوتا کہ انہیں دھوکہ دیا گیا۔

’انہیں نہ صرف ایک دھوکے باز رپورٹر نے دھوکہ دیا بلکہ بی بی سی کے اعلیٰ حکام نے بھی ایسا کیا کیونکہ انہوں نے سخت سوال پوچھنے کی بجائے اسے نظر انداز کر دیا تھا۔

مزید پڑھیں: پرنس ہیری، میگھن مارکل کا انٹرویو: برطانوی شاہی خاندان کا ہنگامی اجلاس

’میرا یہ ماننا ہے کہ اس پروگرام کی کوئی حیثیت نہیں اور اسے دوبارہ کبھی نشر نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ایک غلط موقف کو فروغ دیتا ہے جو کہ 25 سال سے رائج ہے اور اسے بی بی سی اور دوسروں نے کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’بی بی سی اور وہ سب جنہوں نے اس حوالے سے لکھا یا لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، کو اس رائج موقف کے حوالے سے کام کرنا ہو گا۔ ’جعلی خبروں کے اس دور میں پبلک نشریاتی ادارے اور آزاد پریس بہت زیادہ اہم ہیں۔ ایسی ناکامیاں جن کی نشاندہی تحقیقاتی صحافیوں نے کی ہے، نے نہ صرف میری ماں اور میرے خاندان کو مایوس کیا بلکہ انہوں نے عوام کو بھی مایوس کیا۔‘

انڈیپنڈنٹ اردو کے مطابق ڈیانا کے چھوٹے بیٹے شہزادہ ہیری نے کہا: ’ہماری والدہ ایک غیر معمولی خاتون تھیں جنہوں نے اپنی زندگی خدمت میں گزار دی۔ وہ ڈٹ جانے والی، بہادر اور بلا شک و شبے ایک ایماندار خاتون تھیں۔ غیر اخلاقی عوامل پر مبنی استحصالی اور تباہ کن رجحان نے ان کی جان لے لی۔‘

انہوں نے ان کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے کچھ احتساب کیا ہے اور اپنی غلطی تسلیم کی۔

بیان میں انہوں نے مزید کہا: ’یہ انصاف اور سچ کی سمت پہلا قدم ہے۔ اس کے باوجود مجھے تشویش ہے کہ اس طرح کے طریقے اور ان سے بھی بدتر، اب بھی جاری ہیں۔ تب اور اب یہ ایک ادارے، ایک نیٹ ورک یا ایک نشریاتی ادارے سے بڑا مسئلہ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’ہماری ماں نے اس وجہ سے اپنی جان گنوا دی اور ابھی تک کچھ بھی نہیں بدلا۔ ان کی یادگاروں کو محفوظ رکھتے ہوئے ہم سب کی حفاظت کریں گے اور اس وقار کو قائم رکھیں گے جس کے ساتھ انہوں نے اپنی زندگی گزاری تھی۔ ’ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ وہ کون تھیں اور وہ کس طرح ڈٹ کر کھڑی رہیں۔


متعلقہ خبریں