گزشتہ روز انتقال کرنے کرنے والے ڈیوک آف ایڈنبرا شہزادہ فلپ کو خراج عقیدت پیس کرنے کے لیے برطانیہ بھر میں توپوں کی سلامی پیش کی گئی۔
برطانیہ اور جبرالٹر میں برطانوی وقت 12 بجے ڈیوک آف ایڈنبرا کو توپوں کی سلامی دی گئی۔ پیر کو، ہاؤس آف کامنز میں ممبران اسمبلی ڈیوک کو خراج تحسین پیش کریں گے
بی بی سی کے مطابق ہفتے کو جن مقامات پر توپیں سے سلامی دی گئی ان میں لندن میں ٹاور آف لندن اور وولوچ بیرکس کے علاوہ بیلفاسٹ، کارڈف، ایڈنبرگ، پورٹس ماؤتھ اور ڈیون پورٹ شامل ہیں۔ 40 منٹ کے لیے ہر ایک منٹ میں ایک راؤنڈ (کل 41 راؤنڈز) فائر کیے گئے۔
ایچ ایم ایس ڈائمنڈ اور ایچ ایم ایس مونٹ روز سمیت سمندری بحریہ کے بحری جہاز بھی ڈیوک آف ایڈنبرا کو سلامی دی گئی۔ ڈیوک آف ایڈنبرا نے دوسری جنگ عظیم کے دوران بحریہ کے افسر کی حیثیت سے نیوی میں خدمات انجام دیں تھیں۔
عوام کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے گھروں، آن لائن یا ٹی وی سے بندوق کی سلامی کے مناظر دیکھیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق ملکہ برطانیہ کے شوہر شہزادہ فلپ کے انتقال پر شاہی محل میں پرچم سر نگوں کرتے ہوئے آٹھ روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ ان کی تدفین کا اعلان کورونا ایس اوپیز کر دیکھتے ہوئے بعد میں کیا جائے گا۔
دوسری جانب کامن ویلتھ ملک آسٹریلیا کے سڈنی ہاربر برج پر بھی قومی پرچم سنگوں رہے گا۔
برطانوی میڈیا کے مطابق شہزدہ فلپ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ویسٹ منسٹر ایبے چرچ میں ننانوے گھنٹیاں بجائی گئیں جبکہ برطانوی اخباروں کے ذریعے بھی پرنس فلپ کی شاہی خاندان اور برطانیہ کے لیے کی گئیں خدمات کو یاد کیا گیا۔
بکنگھم پیلس کی جانب سے ابھی تک تدفین کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ تدفین کے اگلے دن برطانوی وقت کے مطابق آٹھ بجے تک تمام سرکاری عمارتوں پر یونین اور قومی جھنڈے سرنگوں رہیں گے۔
بتایا جا رہا ہے کہ ملکہ برطانیہ اب حکومت کی موجودہ ہدایات اور سماجی دوری کے رہنما قواعد کے مطابق، آخری رسومات اور تدفین میں تبدیلیوں پر غور کر رہی ہیں۔
بی بی سی کے مطابق شاہی اور سرکاری عمارتوں پر تو یونین جیک سرنگوں ہیں لیکن ونڈزر پیلس میں ایسا نہیں اور یہاں پرچم کبھی سرنگوں نہیں ہوتا۔
ملکہ محل میں مقیم ہیں اور سوگ میں ہیں، لیکن انھیں تدفین کے انتظامات کے بارے میں فیصلے کرنے ہیں۔ جیسے ہی انھوں نے ان منصوبوں کی منظوری دی ہے، ان کو عوام کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: ملکہ برطانیہ کے خاوند شہزادہ فلپ انتقال کرگئے
شاہی خاندان کی جانب سے ڈیوک کی وفات کی خبر جاری کیے جانے کے بعد لوگ ونڈزر کیسل کے دروازوں پر جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔
گذشتہ رات پیلس کے دروازوں کے باہر جو پھولوں رکھے گئے تھے وہ کل رات پیلس کے اندر لے جائے جا چکے ہیں۔
پھول لانے کے بجائے خیراتی ادارے کو عطیہ کرنے کی درخواست کے باوجود، آج صبح کئی اور گلدستے گیٹ کے باہر رکھے گئے ہیں۔ عوام ملکہ اور ملک کی خدمت میں طویل زندگی گزارنے والے شہزادہ فلپ کی خدمات کی معترف ہے۔
اس گلدستوں پر ایک پیغام میں لکھا ہے: ’غیر معمولی آدمی، غیر معمولی زندگی، قومی ہیرو۔۔۔ مزید کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
ان پھولوں کے ساتھ لگے ایک کارڈ پر لکھا تھا ’ریسٹ اِن پیس شہزادہ فلپ۔‘ ایک اور کارڈ میں ملکہ برطانیہ کو مخاطب کرتے ہوئے گہرے افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
ڈیوک آف ایڈنبرا کی وفات کے اعلان کے بعد محل کے دروازے پر ان کی وفات کا نوٹس چسپاں کر دیا گیا ہے۔ ڈیوک کی وفات کے ردعمل میں ونڈزر میں سوگ کا ماحول ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں انھوں نےاسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد اپنی زندگی کے آخری دن گزارے تھے۔ انھوں نے اپنے آخری ایام اپنی اہلیہ یعنی ملکہ برطانیہ کے ہمراہ گزارے۔
شہزادہ فلپ نے شہزادی الزبتھ سے سنہ 1947 میں ان کے ملکہ بننے سے پانچ برس قبل شادی کی تھی اور یہ برطانیہ کی تاریخ کا سب سے زیادہ دیر تک قائم رہنے والا شاہی جوڑا تھا۔
گزشتہ روز برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا تھا کہ شہزادہ فلپ لاتعداد نوجوانوں کے لیے ایک مثال تھے۔
مزید پڑھیں: ملکہ الزبتھ کبھی قومی فرائض انجام دینے واپس نہیں آ سکیں گی
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے شاہی خاندان اور شہنشاہیت کو چلانے میں مدد دی تاکہ وہ ایک ایسا ادارہ بنا رہے جو کہ ہماری قومی زندگی کے توازن اور خوشی کے لیے بلاشک و شبہ کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
سکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر نکولا سٹرجن کا کہنا تھا کہ وہ ڈیوک کی وفات پر ’افسردہ‘ ہیں۔
انھوں نے ٹویٹ کیا کہ ’میں بذاتِ خود، سکاٹ لینڈ کی حکومت اور سکاٹ لینڈ کے لوگوں کی جانب سے ملکہ برطانیہ اور ان کے خاندان سے انتہائی گہرے افسوس کا اظہار کرتی ہوں۔‘
10 ڈاؤننگ سٹریٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کا کہنا تھا کہ جب انھیں ڈیوک کی وفات کی خبر ملی تو انھیں ’شدید افسوس ہوا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’شہزادہ فلپ نے برطانیہ کی کئی نسلوں، پورے کامن ویلتھ اور پوری دنیا سے محبت سمیٹی۔‘
آرچ بشپ آف کینٹربری جسٹن ویلبائے نے کہا ہے کہ ’انھوں (پرنس فلپ) نے ہمیشہ دوسروں کے مفادات کو اپنے پر ترجیح دی، اور ایسا کرتے ہوئے، مسیحی اقدار کی بہترین مثال پیش کی۔‘
مقامی افراد کی بڑی تعداد اس خبر کو سنتے ہی ونڈزر کاسل کے باہر جمع ہوئی اور دروازوں پر پھولوں کے گلدستے رکھے گئے۔ تاہم حکومت کی جانب سے عوام کو ہدایت کی گئی ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے پیشِ نظر وہ شاہی خاندان کے زیرِ استعمال عمارتوں کے گرد نہ جمع ہوں اور نہ ہی ان کے باہر پھول رکھیں۔
بی بی سی کے شاہی امور کے نامہ نگار نکولس وچیل کا کہنا ہے کہ ’یہ پوری قوم کے لیے اداسی کا لمحہ ہے‘ اور ’خاص طور پر یہ ملکہ برطانیہ کے لیے اداسی کا لمحہ ہے جنھوں نے اپنے شریک حیات کو کھویا جو 73 برس ان کے ساتھ رہے۔ یہ اس سے کہیں طویل عرصے کا ساتھ ہے جو ہم سوچ بھی سکتے ہیں۔‘
ان کے مطابق شہزادہ فلپ نے ’ملکہ برطانیہ کے دور میں بہت اہم خدمات پیش کیں۔‘ انھوں نے ڈیوک کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ اس سوچ میں مکمل طور پر یقین رکھتے تھے کہ جو کردار ملکہ نبھا رہی ہیں وہ انتہائی اہم ہے اور ان کی اس حوالے سے مدد کرنا ان کا فرض ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ رشتہ اور ان کے درمیان شادی کے بندھن کی مضبوطی ہی ملکہ کے کامیاب دورِ حکمرانی کی وجہ بنی۔‘
یاد رہے کہ مارچ میں ڈیوک آف ایڈنبرا کو ایک ماہ تک علاج کے بعداہسپتال سے ڈسچارج کیا گیا تھا۔ وہ لندن کےاسپتال میں دل کو لاحق عارضے کے علاج کے لیے داخل تھے۔
شہزادہ فلپ اور ملکہ برطانیہ کے چار بچے، آٹھ پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں اور 10 پڑپوتے پڑپوتیاں، پڑنواسے اور پڑنواسیاں تھے۔
ان کے پہلے بیٹے شہزادہ چارلس سنہ 1948 میں پیدا ہوئے جس کے بعد ان کی بہن شہزادی این سنہ 1950 میں، شہزادہ اینڈریو سنہ 1960 میں جبکہ شہزادہ ایڈورڈ سنہ 1964 میں پیدا ہوئے۔
شہزادہ فلپ 10 جون 1921 میں یونانی جزیرہ کورفو میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد شہزادہ اینڈریو بادشاہ جارج اول کے چھوٹے صاحبزادے تھے۔
ان کی والدہ شہزادی ایلس لارڈ لوئس ماؤنٹبیٹن کی بیٹی تھیں اور ملکہ وکٹوریا کی پڑنواسی تھیں۔