پی ٹی آئی فنڈنگ کیس:درخواستگزار اور اسکروٹنی کمیٹی کے درمیان ڈیڈلاک

الیکشن کمیشن

اسلام آباد: حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کیخلاف پارٹی فنڈنگ کیس کے درخواستگزار اکبرایس بابر اور تحقیقات کرنے والی اسکروٹنی کمیٹی کے درمیان ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا ہے۔

ذرائع کے مطابق اکبر ایس بابر نےا سکروٹنی کمیٹی کےغیرتصدیق شدہ دستاویزات کی تحقیقات پر اعتراض اٹھا دیا ہے۔

اعتراض کے بعد ا سکروٹنی کمیٹی ممبران اوراکبر ایس بابر میں بحث چھڑ گئی اور اکبر ایس بابر نے غیرتصدیق شدہ دستاویزات کی تحقیقات کے طریقہ کار پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

کمیٹی نے اکبر ایس بابر کے کمیٹی پر عدم اعتماد کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن کو آگاہ کردیا ہے۔ اسکروٹنی کمیٹی نے مزید تحقیقات نہ کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن کو آگاہ کر دیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیٹی موجودہ دستاویزات اور جوابات کی روشنی میں رپورٹ تیار کر کے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گی۔

الیکشن کمیشن اسکروٹنی کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کا جائزہ لے گا اور مزید تحقیقات کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس:الیکشن کمیشن نے فیصلے میں تاخیرکی وجوہات بتا دیں

گزشتہ روز اکبر ایس بابر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ فارن فنڈنگ کا معاملہ6 سال سے چل رہا ہے لیکن کمیٹی ابھی بھی ریکارڈ پر حتمی فیصلہ نہیں کر پا رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے23 خفیہ اکاؤنٹس عوام کے سامنے رکھنے کا کہا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اکبر ایس بابر نے کہا کہ لوگ حقائق جاننا چاہتے ہیں لہذا معاملے کی شفاف تحقیقات ہونی چاہیے۔

فارن فنڈنگ کیس کیا ہے؟

خیال رہے کہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے خلاف مبینہ طور ممنوعہ ذرائع سے غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کا کیس چھ سال سے زیرالتوا ہے۔

مذکورہ کیس تحریک انصاف کے بانی اراکین میں سے ایک اکبر ایس بابر سنہ 2014 میں الیکشن کمیشن کے میں لے کر گئے تھے۔

درخواست گزار کا الزام ہے کہ پی ٹی آئی نے بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکیوں سے بھی فنڈز حاصل کیے، جس کی پاکستانی قانون اجازت نہیں دیتا۔

پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ ان کی جاعت نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل نہیں کیے اور حاصل ہونے والے فنڈز کے دستاویزات موجود ہیں۔

پی ٹی آئی نے چھ باراسلام آباد ہائی کورٹ درخواست دی اور مؤقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کسی جماعت کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کا اختیار نہیں۔

موجودہ حکمراں جماعت نے الیکشن کمیشن کی جانب سے معاملے کی جانچ پڑتال کیلئے بنائی گئی اسکروٹنی کمیٹی کے دائرہ اختیار اور اسے کام کرنے سے روکنے کے لیے بھی حکم امتناع حاصل کیے۔

ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اگر کسی جماعت پر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کے ثبوت مل جائیں تو الیکشن کمیشن اس وقت کی حکومت کو اس جماعت کے خلاف ریفرنس بھیجے گا جس پر عمل درآمد کرنا حکومت وقت کے لیے لازم ہو گا۔

الیکشن کمیشن اس سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دینے کے حوالے سے وفاقی حکومت کو لکھے گا اور وفاقی حکومت 15 روز میں یہ معاملہ سپریم کورٹ کو بھییجے گی۔

اگر سپریم کورٹ ریفرنس کو درست مانتی ہے تو ایسی صورت میں سیاسی جماعت ختم ہو جائے گی۔ سیاسی جماعت ختم ہونے کی صورت میں اس جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ ارکان صوبائی اسمبلی اور لوکل حکومت کے نمائندے بھی نااہل ہو جائیں گے۔


متعلقہ خبریں