عظیم مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کا آج 97واں یوم پیدائش ہے۔ وہ مزاح نگاری میں جداگانہ تحریروں کی وجہ سے ہر دورمیں مقبول رہے اور اردو ادب میں عہدِ یوسفی ہمیشہ تابندہ رہے گا۔
مشتاق احمد یوسفی نے چار ستمبر 1923 کو بھارتی شہر فاروق آباد جے پور میں آنکھ کھولی۔ آگرہ یونیورسٹی سے بی اے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے فلاسفی اور ایل ایل بی کی تعلیم حاصل کی۔ پاکستان بنا تو ہجرت کرکے پورے خاندان کے ساتھ کراچی آگئے۔
بینکر ہونے کے باوجود مشتاق احمد یوسفی کا ابتدا سے ہی قلم سے ناطہ جڑا رہا لیکن انہوں نے اپنی تحریروں میں مزاحیہ اور طنزیہ انداز کو نمایاں رکھا۔
مشتاق احمد یوسفی کے مزاح میں زیادہ تر گفتگو، تبصرے، بحث اور مکالمے ہیں۔ عرق ریزی کے ذریعے قارئین و سامعین کو زمانے کی تلخیوں سے روشناس کراتے۔
یوسفی صاحب کی کتابیں چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت، آب گم اور شام شہر یاراں ان کے چاہنے والوں میں بہت زیادہ مقبول ہوئیں۔
ضیا محی الدین نے یوسفی صاحب کے خاکوں کو بڑے خوبصورت پیرائے میں مختلف تقریبات میں پیش کیا۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں مزاح کا رنگ بھرنے والے اس لکھاری کی خدمات کے اعتراف میں حکومت نے ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز سے بھی نوازا۔
ہلال امتیاز حاصل کرنے والے مشتاق احمد یوسفی کو2002 میں اکادمی ادبیات پاکستان نے پاکستان کا سب سے بڑا ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈبھی عطا کیا۔ ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈز بھی یوسفی صاحب کے حصے میں آئے۔
مشتاق احمد یوسفی2018 میں نمونیا کے مرض میں مبتلا ہونے کے باعث انتقال کر گئے لیکن اردو ادب میں عہد یوسفی ہمیشہ تابندہ رہے گا۔