اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر مملکت زرتاج گل اور ان کے مشیر ملک امین اسلم کے خلاف توہین عدالتی کی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عدالتی حکم کے باوجود چڑیا گھر سے ریچھوں کو منتقل نہ کیے جانے کے خلاف کیس پر سماعت کی ہے۔
عدالت سیکرٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی اور چیئرمین وائلڈ لائف بورڈ کو بھی ذاتی حیثیت میں طلب کیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے چڑیا گھر سے جانوروں کے منتقلی کے دوران زخمی ہونے کے معاملے پر وفاقی حکومت سے ذمہ داروں کے نام بھی طلب کر لیے ہیں۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ شیروں کے ساتھ کیا ہوا؟ وکیل نے بتایا کہ شیر اور شیرنی کو لاہور منتقل کیا جا رہا تھا اور کام کیلئے پروفیشنلز کی سروسز لی گئی تھیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی، ایم سی آئی اور وائلڈ لائف بورڈ صرف سیاست کر رہے ہیں،تینوں محکمے اپنی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے تعین کیا تھا اگر کسی جانور کو کچھ ہوا تو کون ذمہ دار ہو گا، عدالت کو اس بات کا اندازہ تھا کہ جانوروں سے یہ ہونے جا رہا تھا۔ فیصلہ دیا تھا کہ ممبرز وائلڈ لائف بورڈ تمام جانوروں کو منتقل کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔
عدالت نے کہا کہ وفاقی حکومت نے جانوروں کی منتقلی کیلئےبورڈ تشکیل دے کر نوٹیفکیشن پیش کیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا عدالت نے ابزرو کیا کہ متعلقہ اداروں میں سے کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھا۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا تمام ذمہ داران کے خلاف ایف آئی آر کاٹی گئی؟ ان تمام ذمہ داران نے عدالتی حکم کی بھی خلاف ورزی کی۔
معزز جج نے کہا کہ کیوں نہ ان تمام ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے، یہ عدالت تمام ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرے گی۔ یہ آسان ہے کہ بیان دے کر کریڈٹ لے لیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ جو ریاستی نمائندے جانوروں کا خیال نہیں رکھ سکتے وہ انسانوں کا کیا خیال رکھیں گے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ اس معاملے کی انکوائری کون کر رہا ہے؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی کے نمائندے انکوائری کر رہے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ کیا وہ اپنے خلاف انکوائری کریں گے؟ آپ نے فیصلے کا مذاق بنا دیا ہے۔ وفاقی حکومت خود کو ایکسپوز کر رہی ہے۔