کراچی میں بچی سے زیادتی و قتل، احتجاج کے دوران ایک شخص ہلاک


کراچی: شہر قائد کے علاقے منگھو پیر میں چھ سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے واقعہ کے خلاف مظاہرے میں گولی لگنے سے ایک شخص جاں بحق ہوگیا۔

گزشتہ روز منگھو پیر کے گنجان آباد علاقے میں ایک کچرا کنڈی سے ننھی بچی کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی تھی۔

بچی کی لاش ملنے کے بعد علاقہ مکینوں اور لواحقین کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔ مظاہروں نے شدت اختیار کی تو پولیس کی بھاری نفری متاثرہ علاقے پہنچی اور لواحقین سے مذاکرات کیے۔ اس دوران مشتعل افراد کے ایک گروہ کی جانب سے اہلکاروں پر پتھراؤ شروع کردیا گیا۔

ذرائع کے مطابق پتھراؤ کے باعث پولیس کی گاڑی کے شیشے ٹوٹے اور کئی افراد زخمی ہوئے۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ اور شیلنگ کی جس سے صورتحال مزید بگڑ گئی۔

ایس پی اورنگی ٹاؤن نے بتایا کہ مظاہرین کے پتھراؤ کی وجہ سے زخمی ہونے والے 12 افراد میں دس پولیس اہلکار ہیں۔ جب کہ زخمیوں میں سے ایک شخص زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔

پولیس افسر کے دعوے کے برعکس ہم نیوز کو دستیاب فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس فائرنگ اور شیلنگ کے دوران ایک فرد گولی لگنے سے گرتا ہے۔ جسے اسپتال منتقل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاہم وہ راستے میں ہی دم توڑ جاتا ہے۔

ہم نیوز کے نمائندہ کے مطابق اسپتال نے تصدیق کی ہے کہ الیاس نامی نوجوان سر میں گولی لگنے سے جاں بحق ہوا ہے۔

احتجاج کے دوران علاقہ مکینوں نے اورنگی ٹاؤن جانے والی سڑک کو بند کر دیا تھا۔ نوجوان کی ہلاکت کے بعد پیداہ شدہ صورتحال پر قابو پانے کے لئے رینجرز کو طلب کیا گیا تھا۔

احتجاج کے دوران جاں بحق ہونے والے شخص کے متعلق تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ مقتول ان کا کارکن ہے جو پولیس فائرنگ سے مرا ہے۔

قبل ازیں بچی کے لواحقین کا کہنا تھا کہ گمشدگی کی رپورٹ جمع کرانے کے باوجود پولیس نے بروقت اور موثر کارروائی نہیں کی تھی۔ بچی 15 اپریل اتوار کو بلوچ پاڑہ میں واقع اپنے گھر سے کھیلنے کے لیے باہر گئی لیکن واپس نہیں آئی تھی۔

پولیس نے تصدیق کی کہ پوسٹ مارٹم کے دوران بچی سے زیادتی اور تشدد کی نشاندہی ہوئی تھی۔ کمر، ٹانگوں اور ناخنوں پر تشدد کے نشانات موجود تھے۔ ننھی کلی کی موت گلے میں پھندا لگانے سے ہوئی۔

صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے مظاہروں میں ایک شخص کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی ایڈیئشنل آئی جی کو تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ اللہ ڈنو خواجہ نے بھی صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل (ڈی آئی جی) غربی عاصم قائمخانی سے رپورٹ طلب کی۔

سینئرسپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ویسٹ عمرشاہد نے بتایا کہ بچی کی والد کی جانب سے نامزد کیے گئے تین ملزمان میں سے دو کو فوری طور پر حراست میں لے لیا تھا، تیسرے کی تلاش جاری ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ احتجاج کے پس پردہ افراد کی نشاندہی کے لئے بھی کام کر رہے ہیں۔


متعلقہ خبریں