’بلیک گولڈ‘ کے مزدور کی بے بسی اور حکومت کی بے حسی

Coal-Mine

زلزلےکا خدشہ ضلعی انتظامیہ کوئٹہ نے بڑا حکم جاری کردیا


دکی: کوئلے کی کان میں کام کرنے والا محنت کش سارا دن محنت کی چکی میں پستا رہتا ہے لیکن شام کو اسے جو معاوضہ ملتا ہے وہ اس قدر قلیل ہوتا ہے کہ اس سے ایک آرام دہ زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

یہ درست ہے کہ محنت کرنے سے کوئی نہیں مرتا لیکن جب مزدور سے جانوروں کی طرح مشقت کرائی جائے تو عمر کی گھڑیاں گھٹنا شروع ہو جاتی ہیں اور جب علاج معالجے کی سہولتیں میسر نہ ہوں تو بیماری مستقل ڈیرے ڈال دیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کوئلہ کی کان میں زہریلی گیس بھرنے سے دو افراد جاں بحق

میلوں لمبی کان میں گھس کر کوئلہ نکالنا ملک الموت سے بالمشافہ گفتگو کرنے کے مترادف ہے کسی بھی وقت کوئی تودہ گر کر مزدور کو زندہ درگوہ کر سکتا ہے جو مزدور حادثات سے بچ نکلتے ہیں وہ بھی لمبی اور نارمل زندگی نہیں گزار پاتے۔

کوئلے کے باریک زرات منہ اور نتھنوں سے گزر کر محنت کش کے اندر بھی ایک قسم کی کان بنا لیتے ہیں جس کی وجہ سے پھیپھڑے، گردے، دل بتدریج کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

قانون کی رو سے کام ختم کرنے کے بعد کوئلے کے مزدور کو گرم پانی سے غسل کرنا چاہئے لیکن مالکان اس کا بندوبست نہیں کرتے بلکہ وہ تو ان بیچاروں کو پینے کا صاف پانی تک مہیا نہیں کرتے۔

یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ کی کوئلہ کانوں میں دھماکے: 23 مزدورجاں بحق، نو زخمی

دکی میں سب سے زیادہ کوئلہ نکالا جاتا ہے لیکن بد قسمتی سے سب سے زیادہ ہلاکتیں بھی یہیں پر ہوتی ہیں رواں سال کوئلہ کی کانوں میں جاں بحق افراد کی تعداد 12 ہے جب کہ سال 2019 کے دوران چالیس مزدور کوئلہ کان کے حادثات میں جاں بحق ہوئے۔

2000 سے 2019 تک پاکستان میں تیرہ سو سے زیادہ کان کن کوئلے کی کان میں دھماکے، مٹی کا تودہ گرنے اور مختلف حادثات کی وجہ سے جاں بحق ہوئے۔


متعلقہ خبریں