طیبہ تشدد کیس: سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست

مجرم سابق سیشن جج راجہ خرم علی خان اور ان کی اہلیہ


اسلام آباد: طینہ تشدد کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔

ملزم سابق سیشن جج راجہ خرم علی خان نے عدالتی فیصلے پر نظر ثانی درخواست دائر کی جس میں استدعا کی گئی ہے کہ 10 جنوری 2020 کے فیصلے میں سقم موجود ہیں عدالت عظمیٰ اس پر نظر ثانی کرے۔

درخواستگزار نے مؤقف اپنایا کہ عدالتی فیصلہ بظاہرانصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے اور فیصلہ دینے سے پہلے شواہد کا صحیح جائزہ نہیں لیا گیا۔

ملزم نے مؤقف اپنایا کہ فیصلے میں اہم قانونی سوالوں کو نظر انداز کیا گیا ہے جس سے قانون کے تقاضے پورے نہیں ہوئے، قانونی میرٹس کو سامنے نہیں رکھا گیا۔ سزا کے اضافے سے متعلق فیصلہ قانون کے مطابق نہیں۔

درخواست کے متن میں شامل ہے کہ متاثرہ بچی طیبہ خود بیان ریکارڈ کراچکی ہے کہ اس پر تشدد نہیں ہوا جب کہ فیصلہ دیتے وقت نجی گواہوں کے بیان پر انحصار کیا گیا۔ سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ فیصلہ ریکارڈ کا جائزہ لیے بغیر دیا گیا

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے تین سال سزا بڑھانے کا ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے ہائی کورٹ کے پہلے فیصلے میں سنائی گئی ایک سال کی سزا برقرار رکھی تھی جب کہ راجہ خرم علی خان کے خلاف سزا میں اضافے کی ریاست کی اپیل بھی زیر التوا ہے۔

طیبہ تشدد کیس

دس سالہ کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ پرتشدد کا واقعہ 27 دسمبر 2016 کو پیش آیا اور اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔ پولیس نے29 دسمبر 2016 کو راجہ خرم علی خان کے گھر سے طیبہ کو تحویل میں لے کر کارروائی شروع کی۔

سابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اور اہلیہ کے خلاف پولیس نے تھانہ آئی نائن اسلام آباد میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ 3جنوری 2017 کو طیبہ کے والدین نے راجہ خرم اور اس کی اہلیہ کو معاف کردیا جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار نے معاملے کا از خود نوٹس لیا۔

سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس نے8 جنوری 2017  کو اسلام آباد کے مضافاتی علاقے سے طیببیہ کو بازیاب کراکے عدالت میں پیش کیا۔عدالتی حکم پر راج خرم علی خان کو12 جنوری 2017 کوبطورایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کام کرنے سے روک دیا گیا۔

10 فروری 2017 کو ایڈیشنل سیشن جج راجہ آصف علی نے ملزمان کی عبوری ضمانت کی توثیق کی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزمان پر 16 مئی 2017 کوفرد جرم عائد کی۔

کمسن ملزمہ طیبہ تشدد کیس میں مجموعی طور پر 19 گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے۔ گواہان میں گیارہ سرکاری اور طیبہ کے والدین سمیت 8 غیر سرکاری افراد شامل تھے۔

استغاثہ کے گواہان کے بیانات، ریکارڈ اور طرفین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد 27 مارچ 2018 کوعدالت نے فیصلہ محفوظ کیا اور 17 اپریل2018 کو سنایا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2018 میں سیشن جج راجہ خرم علی خان اوران کی اہلیہ ماہین ظفر کو ایک، ایک سال قید اور دونوں ملزمان پر50 ،50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

ملزمان نے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس پر ڈویژن بینچ نے جون 2018 میں ملزمان کی ایک سال قید کی سزا کو بڑھا کر تین سال کر دیا تھا۔

سابق سیشن جج راجہ خرم علی خان اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر نے سزا بڑھانے کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس پر عدالت عظمیٰ نے10 جنوری 2020 کو تین سال سزا کالعدم قرار دے سے ابتدائی ایک سال کی سزا برقرار رکھی تھی۔

ریاست کی طرف سے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس سزا کو بڑھانے کی ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس پر کارروائی التوا کا شکار ہے۔


متعلقہ خبریں