اسلام آباد: سندھ میں گیس کا بحران شدد اختیار کرنے کے بعد وفاق اور صوبہ آمنے سامنے آگئے ہیں اور وفاقی اور صوبائی وزراء نے تنندو تیز بیانات دینا شروع کردیے ہیں۔
وفاقی وزیربرانے توانائی عمر ایوب کا کہنا ہے کہ گیس بحران کی ذمہ دار سندھ حکومت ہے۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ سندھ حکومت نے ایل این جی درآمد سے انکار کیا اور پائپ لائن تعمیر کے لیے رائٹ وے نہ دے کر زیادتی کی۔
صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی نے عمر ایوب کے الزامات کے جواب میں کہا ہے کہ وفاقی وزیر نے بیان دے کر بھونڈا مذاق کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق جس صوبے سے گیس پیدا ہورہی ہو وہاں کے عوام کا اس پر پہلا حق ہے۔ سندھ سے 70 فیصد گیس نکلتی ہے پھر بھی صوبہ گیس کی قلت کا شکار ہے۔
دریں اثنا ترجمان پٹرولیم ڈویژن نے جاری پریس ریلیز میں کہا ہے کہ میڈیا پر مجموعی گیس طلب و رسد کے اعداد وشمار کو غلط طریقے سے پیش کیا جا رہا ہے۔
ترجمان کت مطابق غیرمنظم گیس طلب 6 ارب کیوبک فٹ ہے، جبکہ اصل سیل گیس طلب بمعہ آر ایل این جی 4.5 ارب کیوبک فٹ ہے۔ گیس شاٹ فال 1.5 ارب کیوبک فٹ ہے۔
ترجمان کے مطابق حکومتِ سندھ سے رائٹ آف وے نہ ملنے کی وجہ سے عائشہ، آمنہ اور آمنہ نارتھ گیس فلیڈز سے ترسیل ممکن نہیں ہے۔ حکومتِ سندھ کو رائٹ آف وے کے لیے پٹرولیم ڈویژن کی طرف سے پچھلے آٹھ مہینے میں کئی خطوط لکھے گئے، مگر کوئی جواب نہ ملا۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ اگر سندھ حکومت تعاون کرے تو سندھ میں گیس کا بحران حل ہوسکتا ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ جنوری میں رذک گیس فیلڈ سے 40 لاکھ کیوبک فٹ گیس ترسیل کا عمل شروع ہو جائے گا۔ سوئی سدرن سے 1160 لاکھ کیوبک فٹ گیس ترسیل جاری ہے۔ سوئی سدرن سے سیل گیس طلب 1260 لاکھ کیوبک فٹ ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ سوئی سدرن کو 75 لاکھ کیوبک فٹ گیس شاٹ فال کا سامنا ہے- سوئی نادرن سے گیس ترسیل 2121 لاکھ کیوبک فٹ ہے۔ سوئی نادرن کے صارفین کی گیس طلب 2100 لاکھ کیوبک فٹ ہے۔
ترجمان کے مطابق سوئی نادرن کا شاٹ فال زیرو، جبکہ شدید سردی کیوجہ سے زیادہ گیس استعمال سے کئی مقامات پر کم پریشر کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔