انٹرنیٹ پر پابندی کے حوالے سے بھارت دنیا میں سرفہرت آ گیا


وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں جس طرح بھارت ہندو انتہاپسندی کے جس رستے پر سرپٹ دوڑ رہا ہے اس کا ایک نتیجہ اظہار رائے کی آزادی اور معلومات کے بلاروک ٹوک پھیلاؤ پر بندش کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔

معلومات کے آزادانہ پھیلاؤ پر پابندی کا آغاز 145 دن قبل کشمیر سے ہوا جب وہاں پر کرفیو کے نفاذ کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کی سہولت بھی بند کر دی گئی تاکہ بھارتی فوج کے مظالم بیرونی ممالک تک نہ پہنچ پائیں۔

اب یہ سلسلہ تقریباً ان تمام ریاستوں تک پھیلا دیا گیا ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، ان علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت مسلسل تعطل کا شکار ہے۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایکسس نو نامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 2012 سے اب تک 370 بار انٹرنیٹ بند کیا گیا ہے، 2019 کے دوران ایسے 104 واقعات ہو چکے ہیں جس کے باعث بھارت اس حوالے سے دنیا میں پہلے نبر پر آ گیا ہے۔

بھارت میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے وکیل پراشانت بھوشن نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ اس وقت بھارت کے بہت وسیع علاقوں میں انٹرنیٹ پر پابندی کے ساتھ ساتھ دفعہ 144 بھی نافذ ہے تاکہ شہریت کے نئے قانون کے خلاف مظاہروں کی شدت کم کی جائے۔

بھارت کے سابقہ وزیر اور نامور مصنف ششی تھرور کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ پر پابندی ہمارے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

مودی کی حکومت کی جانب سے شہریت سے متعلق متنازعہ قانون منظور کیے جانے کے بعد ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں، عام لوگوں پر بھارتی پولیس کی زیادتیوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کے سامنے آ رہی ہیں۔

انٹرنیٹ پر پابندی عائد کرنے کا ایک مقصد ان ویڈیوز کو پھیلنے سے روکنا ہے تو دوسرا مقصد مظاہرین کے ایک دوسرے سے روابط محدود کرنا ہے۔

واشنگٹن کے تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق انٹرنیٹ پر پابندی بھارت کی معاشی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔

تھنک ٹینک کے ماہرین کے خیال میں اس پابندی کے باعث بھارتی معیشت کو ایک ارب ڈالر کے قریب نقصان ہو رہا ہے جو گزشتہ تین برسوں کے دوران تین ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔

امریکی ادارے سٹینورڈ گلوبل ڈیجیٹل پالیسی انکیوبیٹر کے مطابق یہ تصور کرنا غلط ہے کہ انٹرنیٹ پر پابندی کے باعث مظاہروں میں کمی آئے گی، اس کا نتیجہ برعکس نکلتا ہے اور مظاہروں میں شدت بڑھ جاتی ہے۔

ڈیجیٹل ماہرین کے مطابق بھارت میں اس وقت چھ کروڑ لوگ انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم کر دیے گئے ہیں۔

انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن ٹریکر نامی ادارے کا کہنا ہے کہ مغربی اترپردیش کے علاقے بنجور، بلند سحر، مظفرنگر، میروت، آگرہ، فیروزآباد، سنبھل، علی گڑھ، غازی آباد، رامپور، سیتاپور اور کانپور میں مظاہروں کے باعث انٹرنیٹ معطل ہے۔

فیس بک، واٹس ایپ، ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا سروسز بھی بند ہیں کیونکہ بھارت کے طول وعرض میں 2جی سے لے کر 4جی تک، ہر قسم کی انٹرنیٹ کی سہولت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

خیال رہے کہ بھارت کی آٹھ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ شہریت کے متنازعہ قانون کی مخالفت کر چکے ہیں۔ ادیب، دانشور اور اداکار بھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔

چھتیس گڑھ کے وزیراعلیٰ بھوپیش بگھیل نے متنازع قانون کو ماننے سے انکار کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے مجھ سے شناخت طلب کی تو نہیں دوں گا۔

گزشتہ دنوں میں ناگپور میں آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے لاکھوں افراد نے احتجاج کیا۔ پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا جبکہ مشتعل مظاہرین نے موٹر سائیکلوں، گاڑیوں اور ٹرینوں کو آگ لگا دی۔


متعلقہ خبریں