سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سپریم کورٹ سے گرفتار


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی حفاظتی ضمانت منسوخ کرتے ہوئے گرفتاری کا حکم دے دیا ہے۔ راؤ انوار کو کمرہ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا۔

سپریم کورٹ میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی۔ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار بدھ کو سہہ پہر بارہ بجے اچانک سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ راؤ انوار کی سپریم کورٹ آمد کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ راؤ انوار چہرے پر ماسک لگائے سفید رنگ کی کار میں سپریم کورٹ پہنچے۔ انہیں گاڑی سے اترتے ہی پولیس اہلکاروں نے چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا۔

سپریم کورٹ نے ایڈیشنل آئی جی آفتاب پٹھان کی سربراہی میں پانچ رکنی جے آئی ٹی بنادی۔ جس میں پولیس افسران ولی اللہ دل، آزاد احمد خان، ذوالفقار لاڑک اور ڈاکٹر رضوان شامل ہیں۔ جو راؤ انوار سے نقیب اللہ قتل کیس کی تفتیش کریں گے۔

سپریم کورٹ نے راؤ انوار کے تمام بینک اکاؤنٹس کو بحال کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس نے راؤ انوار سے استفسار کیا کہ ہم نے آپ پر اعتماد کیا آپ نے خود کو سرنڈر کیوں نہیں کیا ؟ عدالت نے آپ کو وقت دیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کمیٹی بنا رہے ہیں اب آپ کو جو کچھ کہنا ہو کمیٹی کے سامنے کہیئے گا۔ آپ نے قانون کے سامنے سرنڈر کیا ہے کوئی احسان نہیں کیا ہے۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ نقیب اللہ قتل کیس کی آزاد تحقیقات ہونی چاہیں۔ راؤ انوار کو تحفظ فراہم کرنا سندھ پولیس کی ذمہ داری ہے۔ راؤ انوار کو تحقیقات مکمل ہونے تک حفاظت میں رکھا جائے۔

راؤ انوار نے اس سے قبل دو مرتبہ سپریم کورٹ کو خط لکھا تھا اور سپریم کورٹ میں پیش ہونے اور نقیب اللہ قتل کیس میں صفائی پیش کرنے کی اجازت مانگی تھی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے راؤ انوار کو بحفاظت پیش کیے جانے کا حکم دیا گیا تھا۔

راؤ انوار کے پیش نہ ہونے پر سپریم کورٹ نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے راؤ انوار کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ پولیس راؤ انوار کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔

نقیب اللہ محسود کو 13 جنوری 2018 کو مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا تھا۔ سابق ایس ایس پی ملیر 19 جنوری سے روپوش تھے۔

سپریم کورٹ نے نقیب اللہ محسود کے قتل پر ازخود نوٹس لیا تھا۔ عدالت نے راؤ انوار کو 27 جنوری کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

نقیب اللہ کے قتل کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج کیا گیا تھا۔


متعلقہ خبریں