پارلیمنٹ میں قانون سازی سے ادارہ مزید مضبوط ہو گا، ماہر قانون


کراچی: ماہر قانون بیرسٹر عابد زبیری نے کہا ہے کہ آرمی چیف کے عہدے سے متعلق پارلیمنٹ میں قانون سازی سے ادارہ کمزور نہیں بلکہ مزید مضبوط ہو گا۔

ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیا سے بات کرتے ہوئے ماہر قانون بیرسٹر عابد زبیری نے کہا کہ آرٹیکل 243 واضح کرتا ہے کہ صدر ہی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کر سکتے ہیں۔ پاکستان آرمی کے رولز میں ریٹائرمنٹ کے لیے کوئی عمر کی قید نہیں ہے اس لیے سپریم کورٹ نے مشروط کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت چھ ماہ میں قانون سازی کر کے سپریم کورٹ کو آگاہ کرے گی۔ اس سے ادارہ مزید مضبوط ہو گا کمزور نہیں۔

عابد زبیری نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت نہیں ہے یا پھر آرمی چیف کے عہدے کے حوالے سے نیا قانون بنا لیں۔ حکومت اور ادارے آئین کے ماتحت ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کی سمریز وزارت دفاع تیار کرتی ہے اور قانونی کمیٹی پر غلطی کو تھوپنا درست نہیں ہے۔ وزارت دفاع کابینہ کو سمری بھیجتی ہے جسے منظور کرنے کے بعد صدر مملکت دستخط کرتے ہیں۔

ماہر قانون نے کہا کہ پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنا ہے اور قانون سازی کے لیے ایوان میں بحث ہوتی ہے تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ ایک آئینی عہدے میں موجود ابہام کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے گی تو اس میں کوئی سیاسی جماعت متنازعہ نہیں بنائے گی۔

سابق صدر اسلام آباد بار ایڈووکیٹ عارف چوہدری نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر ابہام تھا ہی نہیں۔ سپریم کورٹ نے جو 8 سوالات دیے ہیں وہ بے معنی نہیں ہیں۔ اب آرمی چیف کے عہدے کا مزید احترام بڑھے گا اور آئندہ کے لیے کوئی پیچیدگیاں پیدا نہیں ہوں گی۔

انہوں ںے کہا کہ اس معاملے میں حکومت کو حکومت کی طرف سے مشکل آئے گی اور پارلیمنٹ میں حکومت کی اکثریت نہیں ہے تاہم حزب اختلاف جب اس معاملے پر ان کا ساتھ دے رہی ہے تو ان کے خلاف کوئی بیان جاری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سابق صدر اسلام آباد بار نے کہا کہ اگر عدالت پٹیشن پر نوٹس نہ لیتے تو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا ابہام رہتا اور آئندہ بھی مسئلہ پیدا ہو سکتا تھا۔ پی ٹی آئی اپنی نااہلی کی وجہ سے پھر کوئی تنازعہ کھڑا کر دے گی۔

تجزیہ کار ہما بقائی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پہلی مرتبہ اس صورتحال پر سوال اٹھایا اور کچھ بحث بھی ہوئی تاہم اس معاملے کو واپس پارلیمنٹ میں ہی بھیج دیا گیا ہے۔ حکومت نے درست طریقہ کار اختیار کیا ہوتا تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔

انہوں ںے کہا کہ عدلیہ نے جب اس معاملے کو لیا تو انہیں کسی جانب سے سپورٹ نہیں ملی اور نہ ہی حزب اختلاف میدان میں آئی۔ آرمی چیف کے عہدے کو کوئی بھی جماعت متنازعہ نہیں بنانا چاہے گی۔

تجزیہ کار اور سینئر صحافی اعجاز حیدر نے کہا کہ موجودہ حکومت نے کہا ہے کہ نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر کا کوئی کام نہیں ہے اس لیے اسے ایسے ہی چھوڑ دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات کہنا کہ فوج میں صرف ایک ہی بندہ ہے جو معاملات چلا سکتا ہے یہ درست نہیں۔ فوج کے اندر پورا ایک طریقہ کار موجود ہے اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا مطلب ہے کہ فوج میں کوئی قابل افسر ہی نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں حکومت غلط زبان استعمال کرے گی تو قانون سازی کیلئے کیسے بات ہو گی، قائرہ

دفاعی تجزیہ کار جنرل ریٹائر اعجاز اعوان نے کہا کہ اہم ادارے کے سربراہ کے عہدے کو متنازعہ بنایا گیا۔ اب پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہو گی تو اس سے کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں ہو گا اور بات مزید بڑھے گی۔ پاک فوج کا ادارہ ایک منظم ادارہ ہے اور مدت ملازمت میں توسیع دی جائے یا نہ دی جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی دور سربراہی میں انتہائی اہم اقدام اٹھائے اور کامیابیاں حاصل کیں اسی لیے آئندہ کے لیے بھی ہمیں بہت ان سے بہت زیادہ امیدیں ہیں۔

عامر ضیا نے کہا کہ عدالت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6  ماہ کی توسیع تو کر دی لیکن ساتھ ہی گیند پارلیمنٹ کی کورٹ میں ڈال دی ہے۔ اس فیصلہ کو حکومت کی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔

انہوں ںے کہا کہ عدالتی فیصلے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے اور ایک نیا پنڈورا بکس کھل گیا ہے۔


متعلقہ خبریں