کراچی: سابق وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا کہ انتخابات میں دھاندلی کی شکایات بہت زیادہ موصول ہوتی ہیں لیکن فوج کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات شفاف ہوتے ہیں۔
ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے سابق وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا کہ آرٹیکل 218 میں الیکشن کمیشن کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ شفاف انتخابات کرائے جائیں لیکن جب الیکشن کمیشن محسوس کرے کہ حالات خراب ہونے کا خدشہ ہے تو وہ آئین کی شق 221 کی روشنی میں فوج کو طلب کرنے کی درخواست جی ایچ کیو کو بھجواتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات میں فوج کی غیر موجودگی میں کئی ایسے واقعات سامنے آئے کہ جعلی ووٹ کاسٹ کیے گئے اور ٹھپے لگائے گئے جبکہ مختلف جماعتوں کے لوگ بیلٹ بکس بھی اٹھا کر لے جاتے تھے۔ سیاسی جماعتیں اپنی مرضی کے مطابق پریزائیڈنگ آفیسر پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔
کنور دلشاد نے کہا کہ امن و امان کی صورتحال کے باعث فوج کو ملک بھر میں 2018 کے عام انتخابات میں طلب کیا گیا تھا۔ انتخابی اصلاحات بار بار نہیں ہو سکتیں 2017 میں انتخابی اصلاحات ہو چکی ہیں اسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2013 کے عام انتخابات میں دھاندلی کی شکایات بہت بڑی تعداد میں موصول ہوئیں تھیں اور بڑے مسائل پیدا ہوئے تھے جس کی نادرا نے بھی تصدیق کی تھی کہ ایک ایک شخص نے کئی کئی ووٹ ڈالے تھے۔ پولیس کا ایک ایک سپاہی پولنگ اسٹیشن میں ہوتا تھا جو اتنے بڑے مجمع کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہتا تھا۔
سابق وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ بلٹ پیپرز پر ایک خانہ ایسا بھی ہونا چاہیے جس میں ووٹر یہ لکھ سکے کہ وہ انتخابات میں کھڑے ہونے والے کسی شخص کو ووٹ نہیں دینا چاہتا یہ نظام بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی موجود ہے۔