دہلی: سموگ کے عفریت نے بھارتی دارالحکومت کو کچھ ایسا جکڑا ہوا ہے کہ شہریوں کے لیے سانس لینا اور آنکھیں کھلی رکھنا دشوار ہو چکا ہے، سنگین بیماریوں نے شہریوں کے بدن کو اپنا مسکن بنا لیا ہے اور بھارتی حکومت اس مسئلے کے ہاتھوں بےبس نظر آتی ہے۔
آلودگی پر قابو پانے والے سرکاری ادارے کے مطابق نیو دلی کا ائیر کوالٹی انڈیکس 436 تک پہنچ چکا ہے جو مجوزہ بلند ترین سطح سے نو گنا زیادہ ہے۔
یہ تین سال کے دوران آلودگی کی بلند ترین سطح پے جس کے باعث 12ویں جماعت تک کے اسکول دو دن کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔
آلودگی میں کمی لانے کے لیے دہلی میں رواں ماہ کی 4 تاریخ سے 15 تک ’جفت اور طاق‘ کا وہ فارمولا نافذ کر دیا گیا ہے جو اس سے قبل بھی کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہو پایا تھا۔
’جفت اور طاق کا فارمولا‘
اس فارمولے کے تحت طاق نمبر پلیٹ رکھنے والی گاڑیاں صرف طاق دنوں میں ہی چلائی جا سکیں گی جبکہ جفت نمبر کی گاڑیاں صرف جفت دنوں میں شہرکی ٹریفک کا حصہ بن سکیں گی، خلاف ورزی کرنے والوں پر 4000 روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
شہر میں جگہ جگہ پولیس اہلکاروں نے حفاظتی ماسک پہنے ہوئے ہیں اور وہ غلط دنوں میں سڑک پر آنے والی گاڑیوں کو روک رہے ہیں، دلی کے وزیراعلیٰ اروند کینجر وال نے شہریوں سے درخواست کی ہے کہ وہ نئے قواعد پر عمل کریں، ٹیکسیوں اور آٹو رکشا والے بھی اس پابندی کی زد میں ہیں۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق دو ہفتوں تک محیط اس پابندی کے باعث تقریباً 12 لاکھ گاڑیاں سڑکوں پر نہیں آ سکیں گی جس سے آلودگی میں کمی واقع ہو گی۔
’جفت اور طاق‘ کا فارمولا عام آدمی پارٹی نے 2016 میں بھی آزمایا تھا تاہم اس کی کامیابی پر بہت لوگوں نے سوال اٹھائے تھے اور اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
آلودگی کی وجوہات
دہلی کے ساتھ ساتھ شمالی بھارتی ریاستوں میں سردیوں کے دوران فضائی آلودگی بلند سطح پر پہنچ جاتی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ پڑوسی علاقوں میں نئی فصل کاشت کرنے کے لیے کھیتوں میں آگ لگانا ہے۔
وزیراعلیٰ اروند کینجر نے بھی ہریانہ اور پنجاب کی ریاستوں کو دہلی کی فضائی آلودگی کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا تھا جہاں زمین کو فصل کے لیے تیار کرنے کی خاطر کھیتوں میں آگ لگائی جاتی ہے۔
حکومتی اقدامات
گزشتہ برس دہلی کی حکومت نے آگ بجھانے والے عملے کو حکم دیا تھا کہ وہ بلند عمارتوں سے فضا میں پانی کی پھوار پھینکیں تاکہ ہوا میں پھیلی گرد بیٹھ جائے، اسی طرح شہر کا کوڑا جلانے کا عمل بھی روک دیا گیا تھا۔
جمعہ کے روز سے نافذ نئی پالیسی کے تحت فائرکریکرز، ڈیزل جنریٹرز کا استعمال، اینٹوں کے بھٹے، اسٹون کرشنگ اور تعمیرات کا کام بھی شہر میں روک دیا گیا ہے لیکن ان اقدامات سے آلودگی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
دہلی میں لاکھوں افراد غربت کا شکار اور چھت سے محروم ہیں، ان کی عمر سڑک کنارے جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنے کی کوششوں میں بسر ہوتی ہے۔ ان کے پاس فضائی آلودگی سے خود کو محفوظ رکھنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کی برہمی
پیر کو بھارتی سپریم کورٹ بھی یہ مسئلہ حل کرنے میں ناکامی پر حکومت پہ برس پڑی تھی، اعلی عدلیہ کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کے باعث لوگ اپنی زندگی کے قیمتی سالوں سے محروم ہو رہے ہیں۔
جسٹس ارون مشرا اور جسٹس دیپک گپتا پر مشتمل دو رکنی بنچ نے پنجاب، ہریانہ اور مغربی اترپردیش میں فصلیں جلانے کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ صورتحال برداشت نہیں کی جائے گی اور ریاستوں کی حکومتوں پر اس کی ذمہ داری عائد کی جائے گی۔
انسانی صحت پر اثرات
آلودہ فضا میں سانس لینے سے بچوں اور بڑوں کے پھپھڑوں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوتی ہے، سانس کی نالیوں میں انفیکشن ہو سکتا ہے اور شدید دمہ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
حاملہ خواتین وقت سے پہلے یا کم وزن کے بچوں کو جنم دے سکتی ہیں جو زچہ اور بچہ دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
حال ہی میں سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق فضائی آلودگی ذیابیطس کے مریضوں کے لیے نقصان دہ ہے اور بچوں کی نیورولوجیکل نشوونما میں رکاوٹ بنتی ہے۔
انتہائی شدید صورتحال میں آنکھوں کی سنگین بیماریاں اور حتیٰ کہ کینسر کا مرض بھی لاحق ہو سکتا ہے۔
فضائی آلودگی سے ہونے والی اموات
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں فضائی آلودگی کے باعث 42 لاکھ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں ان میں 15 سال سے کم عمر کے 6 لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔
2017 کی سنٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ (سی ایس ای) کی رپوٹ کے مطابق بھارت میں ہر سال وقت سے پہلے موت کا شکار ہونے والے افراد کی ایک تہائی تعداد فضائی آلودگی کے باعث دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے۔
سی ایس ای کی 2019 میں شائع کردہ ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آلودگی کے ہاتھوں پھیلنے والی بیماریوں کے باعث بھارت میں اوسط عمر میں 2.6 سال کی کمی واقع ہو گئی ہے۔