اسلام آباد: ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن پاکستان کے ممبران کی تعیناتی کے لیے جاری ہونے والا صدارتی نوٹیفکیشن معطل کردیا ہے۔
عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل جہانگیر خان جدون کی درخواست پر حکم دیا کہ نوٹیفکیشن آئندہ سماعت تک ملتوی رہے گا۔
جج نے ریمارکس دیے کہ جو چیز پارلیمنٹ کی ہے وہ پارلیمنٹ میں ہی طے ہونی چاہیے، ہمیں اسپیکرقومی اسمبلی اور چئیرمین سینٹ پر پورا اعتماد ہے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا پارلیمنٹ کی توقیر ہمارے لیے مقدم ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں ہی یہ معاملہ حل کیا جائے گا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمنٹ میں منتخب نمائندوں کو ایسے فیصلے خود کرنے چاہیں۔
درخواست گزار وکیل نے موقف اپنا کہ مذکورہ معاملے کے متعلقین کے درمیان تین ملاقاتیں ہوئی ہیں لیکن حالات خراب ہونے کی وجہ سے پیش رفت نہیں ہو سکی۔
جج نے ریمارکس دیے کہ جس معاملے(آزادی مارچ کی جانب اشارہ) کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اس کو بھی پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے۔
عدالت نے درخواستگزار سے استفسار کیا کہ ابھی قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کو کتنا وقت چاہیے؟
وکیل استغاثہ نے جواب دیا چار ہفتے کا مزید وقت دے دیا جائے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ہدایت کی کہ چیف الیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ بھی قریب ہے آپ جلد اس کو حل کرلیں، متعقلہ ادارا اس وقت تقریباً غیر فعال ہے۔
جج نے حکم دیا کہ کیس کی آئندہ سماعت پانچ دسمبر کو ہوگی اور اس سے قبل معاملہ حل کر کے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
معاملہ کیا ہے؟
معاملے کا آغاز اگست 2019 میں اس وقت ہوا جب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے مبینہ طور پر پارلیمانی کمیٹی کو نظر انداز کر کے الیکشن کمشن کے دو ممبران کا تقرر کیا گیا جن کا تعلق سندھ اور بلوچستان سے تھا۔
چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان نے اپنے رد عمل میں کہا تھا کہ نئے ممبران کی تعیناتی آئینی اصولوں کے مطابق نہیں ہوئی، لہذا وہ ان ارکان سے حلف نہیں لے سکتے۔
وفاقی وزیرقانون فروغ نسیم نے موقف اپنایا تھا کہ صدر کو ایگزیگٹو آرڈر(خصوصی احکامات) جاری کرنے کا اختیار ہے اور چیف الیکشن کمشنر کے پاس حلف نہ لینے کا کوئی اختیار نہیں۔
وکیل جہانگیر خان جدون نے 26 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں سیکرٹری صدر پاکستان، وزیر اعظم، تعینات کیے گئے دونوں ارکان اور الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔