اسلام آباد: ایک جانب جمعیت علماء اسلام ف نے خواتین اینکرز اور رپورٹرز کو آزادی مارچ کی کوریج سے روک دیا تو دوسری طرف مولانا فضل الرحمان اور دیگر رہنما انہی خواتین اینکرز کے ساتھ ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر اپنی پارٹی کا خوب دفاع کرتے ہیں، جے یو آئی ف کی اس دوغلی پالیسی نے کئی سوالات کو جنم دے دیا ہے۔
گزشتہ شب مولانا فضل الرحمان نے اینکر پرسن عاصمہ شیرازی کو انٹرویو دیا جس پر پارٹی کو کوئی اعتراض نہیں تھا مگر آج جب یہی خواتین رپورٹرز اور اینکرز جلسہ گاہ میں کوریج کیلئے گئیں تو انہیں روک دیا گیا۔
ہم نیوز کی اینکر اور رپورٹر شفا یوسفزئی اور عینی شیرازی آج جب آزادی مارچ کی کوریج کے لیے پہنچیں تو انہیں جلسہ گاہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
شفا یوسفزئی اور عینی شیرازی کا کہنا تھا کہ انہوں نے منتظمین کو آگاہ کیا تھا کہ وہ باقاعدہ اجازت لے کر یہاں آئی ہیں۔
اس سب کے منظرعام پر آنے کے بعد یہ سوال اٹھنا شروع ہو گیا ہے کہ کیا جے یو آئی ف خواتین کو صرف بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے، اپنے مفادات کے لیے ان کے پروگرامز میں شرکت کر کے جماعت کا موقف تو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں مگر جب یہی اینکرز مارچ کی صورت حال عوام تک پہنچانا چاہتی ہیں تو انہیں روک دیا جاتا ہے۔
یہاں یہ سوال بھی سامنے آیا ہے کہ کیا آزادی مارچ خواتین کی نمائندگی بھی کر رہا ہے؟
سوال یہ بھی ہے کہ جمعیت علماء اسلام کے رہنماوں نے اپوزیشن کے اجلاسوں میں کبھی خواتین پارلیمنٹیرنز کی موجودگی پر اعتراض نہیں کیا، حتیٰ کہ ان کے ساتھ اکثر و بیشتر خوش گپییاں کرتے بھی دکھائی دیے ہیں۔
خواتین صحافیوں کے ساتھ برتے گئے صنفی امتیاز پر یہ سوال بھی اٹھا ہے کہ کیا جے یو آئی ف آزادی مارچ میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ آنے والی خواتین سیاسی ورکرز کو بھی روکیں گے اور اس پر اپوزیشن جماعتوں کا ردعمل کیا ہوگا؟
اس صورت حال کو پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان نے آئین کی خلاف ورزی قرار دے دیا ہے، رہنما پی ٹی آئی اسد عمر کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے پاکستان میں خواتین کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
بی بی سی کے مطابق اس مارچ کا موازنہ بار بار عمران خان کے دھرنے سے کیا جا رہا ہے، لیکن اس دھرنے میں خواتین کی بڑی تعداد شریک تھی۔
مولانا فضل الرحمان پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کے ساتھ شریک مرد اپنے گھر کی عورتوں کی نمائندگی کرنے کے پوری طرح اہل ہیں اور عورتوں کو گھر میں رہ کر روزہ رکھنا اور دعا کرنی چاہیے۔
پچیس جولائی کو پشاور میں ہونے والے جے یو آئی ملین مارچ میں بھی پشاور سے ہم نیوز کی خاتون رپورٹر فاطمہ نازش کو مارچ سے باہر نکالا گیا تھا ۔