افغان کاروباری خواتین طالبان کے جبر کے دن نہ دیکھنے کے لیے پُرعزم


رائیٹرز: افغانستان کی کاروباری خواتین طالبان کے جبر کے دن نہ دیکھنے اور  اپنے ملک کو آگے لے جانے کے لیے پُر عزم دکھائی دے رہی ہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز سے گفتگو میں ان کا کہنا ہے کہ پچھلے اٹھارہ سال میں  افغان خواتین نے جو معاشی ترقی کی ہے وہ اسے واپس نہیں ہونے دیں گی۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مزاکرات کے نتیجے میں کچھ لوگ آنے والے دنوں میں حکومتی امور میں طالبان کا کردار دیکھ رہے ہیں۔ کچھ لوگ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ طالبان پھر سے اپنے رجعت پسندانہ  فیصلے لوگوں پہ مسلط کرینگے۔

تاہم افغانستان کی خواتین جنہوں نے طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد کاروبار میں نام کمایا ہے کا کہنا ہے کہ وہ اپنی اٹھارہ سالہ کامیابیوں پر کسی کو بھی ڈاکہ ڈالنے نہیں دینگی۔

رائیٹرز سے بات کرتے ہوئے اکتالیس سالہ کمیلہ صدیقی کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں لگتا کہ افغان خواتین اب  پیچھے مڑیں گی۔

کمیلہ جو کاویان ٹیکسی کیب کاروبار سے منسلک ہیں تاہم خدشہ ظاہر کر رہی ہیں کہ طالبان سے کوئی بھی ممکنہ فیصلہ کس طرح  یک جنبش قلم ان کی ساری محنت پہ پانی پھیر سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد وہ اور ان کی بہنوں نے پڑھنے کا ارادہ کر لیا تھا تا ہم معاشی تنگ دستی آڑے آئی اور وہ نہیں پڑھ سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ درزی گری کا اپنا کاروبار شروع کرنے سے پہلے وہ اور اس کی بہنوں نے مختلف بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ کام کیا اور پیسے اکھٹے کیے۔

کمیلہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ کسی کو بھی اجازت نہیں دینگی کہ انہیں ترقی کرنے سے روکا جائے۔ ان کا کہنا تھا ہم وہ خواتین نہیں جو سر جھکا کر واپس گھروں کو چلی جائیں۔

حال ہی میں افغان طالبان نے بیان دیا ہے کہ اسلام خواتین کو کاروبار کرنے، ملکیت، وراثت، تعلیم، کام کرنے اور شوہر کا انتخاب کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

تاہم طالبان نے مرد اور خواتین کے  کھلے عام میل جول کے خلاف انتباہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ افغان روایات سے متصادم ہے۔

انتیس سالہ نرگس عزیز شاہی کا کہنا تھا کہ امکان لگ رہا ہے کہ طالبان خواتین کو کاربار کرنے سے نہیں رو کیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ بھر پور مزاحمت کریں گی۔

نرگس عزیز کابل میں کیفے شاپ چلا رہی ہیں جہاں لڑکے اور لڑکیاں آپس میں گھل ملتے اور مطالعہ کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر طالبان اپنے پرانے  اور دقیانوسی خیالات کے ساتھ واپس آتے ہیں تو وہ کسی بھی عورت کو گھر سے اکیلے نکلنے اور کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دینگے۔ وہ کہتی ہیں ایسی صورت میں وہ بھر پور مزاحمت کریں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی کو بھی اپنا کیفے بند کرنے اور دو سالہ محنت پر پانی پھیرنے  نہیں دینگی۔ وہ کہتی ہیں ہم سب امن جاہتے ہیں بشرطیکہ خواتین کے حقوق کو تحفظ حاصل ہو۔

افغان ویمن چیمبر آف کامرس کی صدر مانیزہ وافق کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ 12,000 کاروباری خواتین منسلک ہیں جو میڈیا ، ٹیکنالوجی، پرائیویٹ اسکولز وغیرہ کے کاروبار سے منسلک ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خواتین نے مختلف کاروبار میں 70 میلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے اور اس سال ان کی برآمداد سے 800 میلین ڈالر حاصل کیا گیا۔

وافق کا کہنا ہے کہ وہ پر امید ہیں کہ طالبان کسی بھی ممکنہ معاہدے کی صورت میں خواتین کے حقوق اور کاروبار میں ان کی شراکت پر قدغن نہیں لگا ئینگے۔

یہ بھی پڑھیے: طالبان کے ساتھ مذاکرات میں زبردست پیشرفت ہوئی ہے، زلمے


متعلقہ خبریں