عدالت میں جج کی بجائے وکیل زیادہ علم رکھتا ہے، چیف جسٹس پاکستان



اسلام آباد:چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہاہے کہ وکالت میں کامیابی کی کنجی محنت میں پوشیدہ ہے ،وکلاء ہی ججز کی معاونت کرتے ہیں اورعدالت میں جج کی بجائے وکیل زیادہ علم رکھتا ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ان خیالات کا اظہار فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں تقریب  تقسیم اسناد سے خطاب میں کیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ڈی جی فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی نے درست کہا کہ وکلا کی تربیت لازمی ہے،عدلیہ اور میڈیسن کے شعبے دونوں مقدس شعبے ہیں،ان شعبوں میں کسی دھوکے باز کی کوئی جگہ نہیں ہے،ایک وکیل لوگوں اور معاشرے کے لیے لڑتا ہے،اس سے زیادہ مقدس کام اور کوئی نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے سسٹم میں تربیت کا فقدان تھا،یہاں کے برعکس برطانیہ میں ایک لاء گریجویٹ کو تربیت سے وکیل بنایا جاتا ہے،لاء کالجز کی کثرت کی وجہ سے اب سینئر وکلاء کی کمی ہو گئی ہے۔اب ایسے اداروں کی ضرورت ہے جہاں نوجوان وکلاء کی تربیت کی جا سکے

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہاخواہش تھی کہ وکلاء کو ٹریننگ دی جائے جس کا جوڈیشل اکیڈمی میں اہتمام کیا گیا،نوجوان وکلاء کیلئے سینئرز کیساتھ ٹریننگ کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پرانے وقتوں میں وکلاء فیس نہیں لیتے تھے، وکلاء پیسہ کمانے کی طرف نہ جائیں، لوگوں کی خدمت کریں پیسہ خود آپکے پیچھے آئے گا،گزرتے وقتوں میں وکلاء کے گاؤن کے پیچھے لگی ہُڈ میں لوگ پیسے ڈالتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ کہا جاتا ہےجو بچہ باتونی ہو وہی وکیل بنے گا،ضروری نہیں کہ یہ بات سو فیصد درست ہووکالت میں کامیابی کی کنجی محنت میں پوشیدہ ہے،عدالت میں جج کی بجائے وکیل زیادہ علم رکھتا ہے۔ وکلاء ہی ججز کی معاونت کرتے ہیں،وکلا اپنے کلائنٹ کیساتھ مخلص رہیں تو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جاسکتی۔

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ عدالت میں تقریری مقابلہ نہیں ہونا چاہئے،موثر دلائل سے کیس جیتا جاتا ہے، اگر کوئی وکیل جج کو یا جج وکیل کو کُرسی مار دے تو دیکھیں ہم کہاں پہنچ گئے ہیں؟کسی ایک شخص کے فعل سے پورے شعبے کو بُرا سمجھا جاتا ہے۔

عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے کہا کہ سینئر وکلاء نے جونئیر وکلا پر توجہ دینا بند کر دی ہے،ہم نے جو اپنے بڑوں سے عزت سیکھی وہ ہمیں جونئیر وکلاء کو سکھانا ہے،عدلیہ بحالی تحریک کے بعد تحریک بحالی عزت وکلاء کی ضرورت ہے۔

جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ یہ کسی ایک وکیل کا معاملہ نہیں بلکہ ہم سب کا معاملہ ہے،وکیل بحث زبان اور دماغ سے کریں ہاتھوں سے نہیں،جب کوئی جج سوال کرتا ہے تو وکیل کے لیے اس کو سمجھنے کا موقع دیتا ہے، عدالت میں جب بھی جج کوئی سوال پوچھے تو آپ کو خوشی ہونی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ جج سوال پوچھتا ہے تو وکیل کو جج کا دماغ سمجھ جانا چاہئے۔ جج کے سوال پوچھنے پو وکیل کے لئے ایک کھڑکی کھُل جاتی ہے،تب وکیل کوشش کرے کہ جج کے سوال پر زیادہ جواب دینے کی کوشش کرے،ایک جج کو جھٹلائے بغیر بڑے ادب سے آپ ایک نقطہ دوسری طرح سے بھی سمجھا سکتے ہیں۔

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ کبھی بھی کسی جج کو شرمندہ کرنے کی کوشش نا کریں،ہماری ٹریننگ میں وکیل کو پتلون میں ہاتھ ڈالنے کی اجازت نہیں تھی،بعض اوقات جج آپ کی بات سنتے سنتے سو جاتے ہیں،جج سو جائے تو یہ مت کہیں کہ جج صاحب آپ سو گئے ہیں؟

جسٹس کھوسہ نے کہا کوشش کریں جج سو جائے تو روسٹرم پر کتاب سے تھوڑی سی دھمک دیں جس سے جج جاگ جائے،ہمیں عدالیہ کی عزت کا کلچر واپس لانا پڑے گا،دلائل کو ایک دماغ سے دوسرے دماغ تک پہنچانے کے لیے الفاظ کا مناسب چناؤ لازم ہے،اچھے الفاظ کا چناؤ تبھی آتا ہے جب ادب سے شغف ہو۔

یہ بھی پڑھیے: اچھی خبریں صرف عدلیہ سے آرہی ہیں، چیف جسٹس


متعلقہ خبریں