’نئے ٹیکسوں سے ہر خاندان پر 61 ہزار روپے کا اضافی بوجھ بڑھے گا‘


اسلام آباد: ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن نے انکشاف کیا ہے کہ یہ آئی ایم ایف کا تیار کردہ بجٹ ہے جسے ہماری حکومت نے یہاں آکر پڑھ دیا ہے، اس سے عوام پر بہت زیادہ بوجھ پڑے گا۔

پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیاء کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے آئی ایم ایف نے جو ہدف دیا وہ حکومت نے رکھ تو دیا ہے لیکن یہ حاصل نہیں ہوگا۔

ڈاکٹر اشفاق حسن نے سوال کے جواب میں کہا کہ حزب اختلاف کی باتیں سننے کے لیے اچھی ہیں لیکن قابل عمل نہیں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی معاشی ٹیم نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چار لاکھ سے 12 لاکھ روپے تک ٹیکس اشتنثنیٰ لے جانا بددیانتی تھا، یہ حکومت نے واپس لا کر اچھا کام کیا ہے کہ اس سے لاکھوں لوگ ٹیکس کے دائرہ کار سے نکل گئے تھے۔

ڈاکٹر اشفاق حسن نے میثاق معیشت سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ اس پر بات کرنے کے لیے جو لوگ آئیں گے وہ کہیں گے کہ ماضی کی بات نہ کریں، اگر ماضی کی بات نہیں کریں گے تو غلطیاں کیسے درست ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ ابھی ان باتوں کا مقصد اپوزیشن کا دباو سے نکلنا ہے۔ تینوں جماعتوں میں ان اختلافات ہیں کہ ان کا ساتھ چلنا ممکن نہیں۔

ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ فائلر اور نان فائلر کا معامہ اٹھنے سے بہت خوف پھیلا ہے، موجودہ حکومت کے اقدامات سے بھی یہی ہوا ہے اور بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے اپنے پیسے نکال لیے ہیں۔ پانچ ہزار نوٹ ختم کرنے کی تجویز دی جارہی ہے اس سے معیشت تباہ ہوجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو کہا گیا کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں گئے تو غیریقینی بڑھے گی لیکن آئی ایم ایف کے پاس جانے کے باوجود معیشت مستحکم نہیں ہورہی ہے۔

مشیر اقتصادی امور پنجاب ڈاکٹرسلمان شاہ نے کہا کہ قومی سچ یہ ہے کہ 32 ارب ڈالر کی کمی تھی جسے پورا کرنے کے لیے ہمارے پاس زرمبالہ نہیں تھا۔ سعودی عرب سمیت باقی ممالک سے امداد اور آئی ایم ایف سے پروگرام لینا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ ان اقدامات سے یہ ہوا کہ اب پاکستان دیوالیہ نہیں ہوگا لیکن اس کے حصول کے لیے بجٹ میں سمجھوتے کرنے پڑے ہیں۔

ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ نئی صعنتوں اور نئے روزگار کے لیے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو تجاویز دینی چاہیئں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت یا آئی ایم ایف کی پالیسی ہے، ورلڈ بینک کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اگر تمام زراعانت ختم کردیں تو آٹھ ہزار ارب تک ٹیکس اکٹھا ہوجائے گا۔

ڈاکٹرسلمان شاہ نے کہا کہ توانائی کے شعبے کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کو بات کرنے کی ضرورت ہے کہ 1400 ارب روپے گردشی قرضہ ہے، حکومت کی کوشش ہے کہ 2020 تک یہ ختم کرنے ہیں، یا بجلی کی قیمت مہنگی ہوگی یا حکومت قرضوں سے اس کی ادائیگی کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ اداروں کی نجکاری، نقصان میں چلنے والے قومی ادارے اور بیوروکریسی کا احتساب یہ ایسے معاملات ہیں جو انتہائی خراب ہیں جن کی وجہ سے ہماری معیشت آگے نہیں جارہی۔

ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ یہ بات سچ ہے کہ سرمایہ کاروں میں خوف پھیلا ہوا ہے جب تک ٹیکس کے نظام میں اصلاحات نہیں ہوں گی ان اقدامات کا منفی اثر معیشت پر پڑے گا۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مارکیٹ میں پھیلے خوف کو ختم کرے۔

پروگرام میں ہم نیوز کے رپورٹر ریحان سید نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کی خواہش پر میثاق معیشت کے لیے رضامندی ظاہر کردی ہے، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے ملاقات میں وزیراعظم نے اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔


متعلقہ خبریں