بھوربن:افغانستان میں قیام امن کیلئے ’لاہور پراسس‘ کے نام سے پہلی کانفرنس



اسلام آباد:افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے ’لاہور پراسس‘ کے نام سے پہلی کانفرنس آج بھوربن مری میں منعقد ہورہی ہے۔

کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کررہاہے ۔ پرامن اور خوشحال افغانستان خطے کے مفاد میں ہے۔ افغان بحران کی وجہ سے پاکستان زیادہ متاثر ہوا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کئی دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کی کفالت اور دیکھ بھال کررہاہے ۔

شاہ محمو قریشی نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔ الزام تراشی کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کے مشترکہ مفادات کو دشمنوں نے نقصان پہنچایا ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاک، افغان تعلقات پر کسی کو عدم اعتماد پیدا کرنے، پروپیگنڈہ یا منفی تاثر پیدا نہیں کرنے دیں گے۔ایک دوسرے کے مابین عدم اعتماد کی فضاء کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ پائیدار امن کیلئے پاک، افغان مقاصد مشترک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ خوش آئند ہے کہ سب نے فوجی نہیں سیاسی حل کی ضرورت کو سمجھا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان کی تمام لیڈرشپ کے شکرگزار ہیں،ایک مشترکہ مستقبل کے لیے یہاں جمع ہیں،پاکستان اور افغانستان نے ایک بڑی قیمت ادا کی ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے  اس وقت کئی پراسس ایک وقت میں جاری ہیں،دوحہ پراسس، ماسکو پراسس، جرمنی، چین کے زیراہتمام بھی بات چیت جاری ہے۔

شاہ محمودقریشی نے کہا انہیں بشکیک میں بتایا گیا کہ چین، روس، ایران، افغانستان سمیت ایک بڑی کانفرنس جلد ماسکو میں ہوگی۔یہ کانفرنس ایک دوسرے سے سیکھنے اور الزام تراشی سے بچنے کے لیے ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان امن واستحکام کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ پاکستان پرامن افغانستان کی حمایت کرتاہے اور اس کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہاہے اور آئندہ بھی جاری رکھے گا۔

گلبدین حکمت یار نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم پاکستان کے شکر گزار ہیں کہ اتنی اہم کانفرس منعقد کی، یہ جنگ افغانستان کی جنگ نہیں بلکہ پاکستان کے بقا کی جنگ بھی ہے۔ عراق، یمن ،ایران اور افغانستان میں بدامنی کا ماحول ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان مل کر افغان جنگ کا خاتمہ کرسکتے ہیں ۔ دونوں ممالک دیرپا قیام امن میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

کانفرنس سے افتتاحی خطاب کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ ایک پراسس کا آغاز ہوا ہے،افغانستان کی تناور شخصیات یہاں موجود ہیں۔افغان سیاسی قیادت نے پاکستان کی کوششوں کوسراہا۔یہ ایک اچھا آغاز ہے،

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہمارا مقصد امن اور معاشی استحکام ہے،افغان صدر اشرف غنی بھی جلد پاکستان آرہے ہیں۔

حنیف اتمر نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ دہشت گردی کو مل کر شکست دینا ہو گی،پاکستان کو افغانستان کے ساتھ ریاستی سطح پر بات جیت کرنا ہو گی،پاکستان کے طرف سے افغان آزادی اور خود مختاری کے احترام کے موئقف کو سراہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغان صدر اشرف جلد غنی پاکستان کے دورہ کرنے والے ہیں،ہم افغان طالبان سے بات مذاکرات کرنا چاہتے ہیں،ہم عالمی دہشت گردں سے مذاکرات نہیں کریں گے،امریکا طالبان مذاکرات کے حامی ہیں اوراڤغان امن مذاکرات میں پاکستان کے کردار کی توقع کرتے ہیں۔

سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی افغانستان و سابق گورنر استاد عطا محمد نورنے کہا کہ اچھا ہوتا یہ پاک، افغان، طالبان سہ فریقی کانفرنس ہوتی، پاک،  افغان عوام امن چاہتے ہیں،افغانستان پاکستان کو امن کیلئے اپنی کاوشیں کرنا ہوں گی،ایران، وسط ایشیاء کا افغان امن کیلئے کلیدی کردار ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں امن نہیں ہو گا تو نقصان ہو گا،داعش کی افغانستان میں موجودگی تشویش کا باعث ہے،افغان طالبان میز پر لچک کا مظاہرہ نہیں کر رہے،افغان قومی مفاد امن، ہمسایہ ممالک کا مفاد سفارتی سطح پر امن کا حصول ہے۔

استاد عطا محمد نے کہا کہ بھارت کیساتھ افغان تعلقات سے پاکستان کیساتھ تعلقات متاثر نہیں ہوں گے،امریکا کیساتھ آزاد حیثیت میں تعلقات رکھتے ہیں،پاکستان اور افغانستان کے مابین چیلنجز کے حل کیلئے مل کر کام کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ دریائے کنڑ پر توانائی منصوبے پر کام تیزکیا جائے کیونکہ دونوں ملکوں کے عوام کو فائدہ پہنچانا ہو گا،پاکستان اور افغانستان کو ماضی کا یرغمال نہیں بننا۔ سائنس، اکادمیہ اور اعلی تعلیم میں تعاون بڑھانا ہو گا۔

استاد عطا محمد نے کہا کہ افغان جنگ میں بہت سے ممالک کو اپنے فوائد دکھائی دیتے ہیںفرقہ وارانہ، تیل کے حصول، طاقت کی تمام جنگیں افغان سرزمین پر لڑی جا رہی ہیں۔

ایک غیر سرکاری تنظیم لاہور سنٹر فار پیس اینڈ ریسرچ (ایل سی پی آر)کی طرف سے منعقدہ کانفرنس میں افغانستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین شریک ہیں۔

’لاہورپراسس‘ نامی اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس میں افغانستان کی 18 سیاسی جماعتوں اور جتھوں( گروپس) کے45 مندوبین شرکت کررہے ہیں۔

سابق افغان وزیراعظم و حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یاراورسیکرٹری جنرل جماعت اسلامی افغانستان و سابق گورنر استاد عطا محمد نور بھی کانفرنس میں شریک ہیں ۔

حزب وحدت مردم افغانستان کے استاد محمد محقق ،سابق وزیر دفاع وحید اللہ سبوران، سابق گورنر حاجی عزیز الدین،افغان امن جرگہ کے سربراہ محمد کریم خلیلی  اورقومی اسلامی فرنٹ کے سربراہ پیر سید حامد گیلانی  بھی مری بھوربن پہنچ چکے ہیں۔

افغانستان کے متعدد سینیٹرز اور ارکان اسمبلی بھی کانفرنس میں شریک ہیں۔

گزشتہ روز جاری کیے گئے تنظیم کے اعلامیے کے مطابق ’لاہور پراسس‘ سے عوامی رابطوں اور مستقبل کے لیے تجاویز کا تبادلہ موقع ملے گا۔اس اہم کانفرنس میں افغان سیکیورٹی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا۔

غیر سرکاری تنظیم کا کہناہے کہ ’لاہورپراسس ‘سے مستقبل کی حکومتوں کے درمیان اعتماد سازی کی فضا قائم کرنے میں مدد ملے گی۔کانفرنس تجارت،روابط، صحت اور دیگر شعبوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کا موقع فراہم کرے گی۔

اس حوالے سے مزید کہا گیاکہ امن  کانفرنس میں افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی کے حوالے سے بھی بات ہوگی ۔

غیر سرکاری تنظیم کے اعلامیے میں کہا گیاہے کہ  ’لاہور پراسس‘ میں مستقبل میں طالبان کی شمولیت کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ۔  اس کانفرنس کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ افغان صدر کے دورہ پاکستان سے قبل ہورہی ہے۔

غیر سرکاری تنظیم کی درخواست پر صدر پاکستان عارف علوی افغان امن کانفرنس کے شرکاء کے اعزاز میں عشائیہ دیں گے،اورافغان امن کانفرنس کے شرکاء وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات کریں گے۔

افغان عوام کو افغان امن عمل کا فوری حصہ بنایا جائے،زلمے

اس ہم ترین کانفرنس میں بڑی تعداد میں سابق سفراء، محققین اور تھنک ٹینکس  بھی شریک ہیں۔


متعلقہ خبریں