ڈونلڈ ٹرمپ: جھوٹے دعوؤں میں دس ہزار کا ہندسہ عبور کرلیا

ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحقیقات میں نیا موڑ

واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دس ہزار جھوٹے دعوے اپنے 800 دن کے دور صدارت میں پورے کرلیے ہیں۔ اس ریکارڈ کو بنانے کے لیے انہوں نے روزآنہ آٹھ جھوٹے دعوے کیے۔

یہ اعداد و شمار مؤقر امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے اپنی رپورٹ میں جاری کیے ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ کی فیکٹ چیکر رپورٹ کے مطابق امریکہ کے صدرنے اپنے دور صدارت کے 888 دنوں میں دس ہزار ایک سو گیارہ ایسے دعوے کیے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ انہوں نےیومیہ آٹھ جھوٹے دعوے کیے ہیں۔

اخبار کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جھوٹے دعوؤں کا آغاز 2017 میں ری پبلکن رہنما کے طور پرعہدہ سنبھالنے کے پہلے 100 دن سے ہی شروع کردیا تھا۔

اخبار کے جاری کردہ اعداد و شما رکے مطابق گزشتہ سات ماہ میں یہ تعداد اوسطاً 23 دعوے فی دن ہوگئی تھی جو مختلف ریلیوں، ٹوئٹر، تقاریر یا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیے گئے تھے۔

میک امریکا گریٹ اگین یا (امریکا کو دوبارہ عظیم بنائیں) کے نام سے ان کی ریلیوں میں ڈونلڈ ٹرمپ نے سب سے زیادہ حقائق کے ساتھ مذاق کیا۔ انہوں نے اپنے کل 22 فیصد جھوٹے دعوے ان ہی کی ریلیوں میں شرکت کے دوران کیے۔

ذرائع ابلاغ  کو عوام دشمن قرار دینے کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ نے حقائق پر نظر رکھنے والوں کو بھی رواں سال کے آغاز میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

امریکی صدر کے مطابق حقائق پہ نگاہ رکھنے والے افراد میڈیا میں سب سے زیادہ بے ایمان ہیں۔

دلچسپ امر ہے کہ گزشتہ دنوں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر کے چیف ایگزیکٹو سے طویل ملاقات ہوئی تو ان کی دلچسپی صرف اپنے فالوورز تک محدود رہی تھی۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق ٹرمپ ٹوئٹر کے سی ای او جیک ڈارسی سے ملاقات کے دوران صرف یہ سوال کرتے رہے تھے کہ ٹوئٹر پر ان کے  فالوورز کی تعداد کیوں کم ہو رہی ہے؟

مؤقرنشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ نے اس ضمن میں اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ٹرمپ کا الزام ہے کہ سوشل میڈیا کمپنی  ٹوئٹر جانبدار ہے۔

عالمی خبررساں ادارے نے بھی اس ضمن میں کہا تھا کہ صدر ٹرمپ کی تشویش کے جواب میں ٹوئٹر کے چیف ایگزیکٹو نے صرف اتنا بتایا تھا کہ جعلی ٹوئٹر اکاؤنٹس کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے باعث متعدد معروف شخصیات کے فالورز کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔

قابل غور بات ہے کہ امریکی صدر نے جیک ڈارسی کی وضاحت پر یقین نہیں کیا تھا اور اس ملاقات کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کردہ اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ری پبلکن پارٹی کے رکن ہونے کی وجہ سے ٹوئٹر ان سے تعصب برتتا ہے۔


متعلقہ خبریں