اسلام آباد: مفکر پاکستان اور شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ سر محمد اقبالؒ کی 81 ویں برسی آج ملک بھر میں نہایت عقیدت و احترام سے منائی جارہی ہے۔
مصور پاکستان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اہل وطن کی بڑی تعداد آپؒ کے مزار پر حاضری دے رہی ہے جہاں قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی کا سلسلہ جاری ہے۔ عقیدت مندوں نے بڑی تعداد میں آپ کے مزار پر پھولوں کی چادریں چڑھائی ہیں اور پتیاں ڈالی ہیں۔
آپ 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ والدین نے نام محمد اقبال رکھا۔
ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کرنے کے بعد مشن ہائی اسکول سے میٹرک کیا اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔
ایف اے کرنے کے بعد آپ لاہور گئے جہاں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پاس کیے۔
حکیم الامت 1905 میں اعلیٰ تعلیم کے حصول لیے انگلستان گئے اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ لندن کے بعد مزید تعلیم کے حصول کی تڑپ آپ کو جرمنی لے گئی جہاں فلسفے میں پی ایچ ڈی کی۔
علامہ سرڈاکٹر محمد اقبال نے شاعری کے ساتھ وکالت کی اورملک کی سیاسی تحریکوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1922 میں حکومت برطانیہ نے آپ کو سر کا خطاب دیا۔
شاعرمشرق آزادی وطن کے علمبردار تھے۔ آپ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے اور 1930 میں الہ آباد کا مشہور تاریخی خطبہ بھی آپ نے دیا۔
تاریخی خطبے میں تصور پاکستان پیش کیا تو قوم آج آپ کو مصور پاکستان کے نام سے بھی یاد کرتی ہے۔
آپ کی تعلیمات اور قائد اعظم کی ان تھک کوششوں سے برصغیر کی تقسیم ہوئی تو دنیا میں سب سے بڑی اسلامی مملکت معرض وجود میں آئی۔
قیام پاکستان سے قبل مصور پاکستان علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کا 21 اپریل 1938 کو انتقال ہو گیا تھا۔ آپ لاہور میں آسودہ خاک ہیں۔
علامہ ڈاکٹرسر محمد اقبال مولانا روم کو اپنا روحانی استاد مانتے تھے اور انہیں ’پیر رومی‘ کے نام سے یاد کرتے تھے۔
اردو کے شعری مجموعے بانگ درا، بال جبریل اور ضرب کلیم کے علاوہ سات فارسی شاعری کے مجموعے اور انگریزی میں لکھی آپ کی کتب دنیا بھر میں علم کے پیاسوں کی تسکین کا باعث ہیں۔
علامہ سر ڈاکٹر محمد اقبال کی متعدد کتب اور شعرے مجموعوں کے انگریزی، فرانسیسی، جرمنی اور چینی زبانوں کے علاوہ کئی دیگر زبانوں میں بھی تراجم ہوچکے ہیں۔
شاعر مشرق کے صاحبزادے جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال مرحوم نے اپنی خود نوشت سوانح حیات ’اپنا گریبان چاک‘ میں لکھا ہے کہ 1977ء سے پیشتر ہی علامہ اقبال کے صد سالہ جشن ولادت منانے کی تیاریاں شروع ہو گئی تھیں۔ بھٹو حکومت نے اس مقصد کے لئے نیشنل اقبال کمیٹی قائم کی جس کے ممبروں میں مولانا کوثر نیازی‘ حفیظ پیرزادہ اور دیگر لوگوں کے علاوہ میں بھی شامل تھا۔ کمیٹی کے دو ایک اجلاس گورنر ہاؤس لاہور میں ہوئے جن کی صدارت بھٹو نے کی۔ دیگر تجاویز کے علاوہ دو باتیں خصوصی طور پر قابل غور تھیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ ایک کا تعلق تو جاوید منزل کو مجھ سے خرید کر ’اقبال میوزیم‘ میں تبدیل کرنا تھا اور دوسری تجویز کے مطابق علامہ اقبال کے مزار کی تعمیر نو حافظ و سعدی کے مزارات کی صورت میں کرنا تھی۔ یہ تجویز غالباً بھٹو کی تھی۔ میں نے کمیٹی کے اجلاس میں اس کی مخالفت کی ۔ میرا مؤقف تھا کہ مزار مسلمانوں کے چندے سے تعمیر ہوا ہے اور اس کی موجودہ طرز تعمیر کی قبولیت کے پیچھے بڑی دلچسپ روداد ہے۔ اقبال مزار کمیٹی نے مزار کے نقشے کے لئے ظاہر شاہ (افغانستان کے بادشاہ) اور نظام حیدر آباد سے استدعا کی کہ اس سلسلے میں کمیٹی کی مدد کریں۔
افغانستان کے سرکاری اطالوی ماہر تعمیرات نے جو نقشہ بھیجا اس میں اطالوی انداز میں تربت پر علامہ اقبال کا مجسمہ ہاتھ باندھے لٹایا گیا تھا۔ دوسری طرف حیدر آباد دکن سے جو نقشہ آیا وہ وہ کچھ ایسا تھا گویا کسی بلبل کو نہایت باریک اور خوبصورت پنجرے میں بند کر دیا ہو۔ کمیٹی نے اطالوی ماہر کا نقشہ تو غیر موزوں سمجھ کر مسترد کر دیا مگر حیدر آباد دکن کے ماہر تعمیرات زین یار جنگ کو لاہور آنے کی دعوت دی گئی۔ جب وہ لاہور آئے تو چودھری محمد حسین صدر اقبال مزار کمیٹی انہیں اپنے ساتھ موقع پر لے گئے۔
بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں پر انہیں بٹھا کر فرمایا دیکھئے! ایک طرف قلعہ لاہور کا صدر دروازہ ہے جو مسلمانوں کی ریاستی شوکت کا نشان ہے اور دوسری طرف بادشاہی مسجد میں داخل ہونے کے لئے صدر دروازہ ہے جو ان کی روحانی عظمت کا نشان ہے۔ علامہ اقبال اسلام کی ریاستی شوکت اور دینی عظمت کے علمبردار تھے۔
ان کا تعلق گل و بلبل کی شاعری سے نہ تھا بلکہ وہ فقر و سادگی، عزم و ہمت، تگ و دو اور عمل پیہم کے شاعر تھے۔ اس لیے ان کے مزار کی عمارت اس طرز کی ہونی چاہئے جو ان اقدار کو نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ مسجد کی مشرقی دیوار سے جس کے زیر سایہ ان کی تربت ہے کو بلند نہ ہونے پائے۔
جسٹس جاوید اقبال نے لکھا ہے کہ زین یار جنگ چودھری محمد حسین کی بات سمجھ گئے اور انہوں نے واپس جا کر نیا نقشہ بنایا اور کمیٹی کو بھجوایا جو پسند کیا گیا۔ مزار کی موجودہ عمارت اسی نقشے کے مطابق تعمیر کی گئی ہے۔
یہ کنول کے پھول کے اندر ایک طرح کا مضبوط و مستحکم مصری ٹیلہ‘‘ (پیرامڈ)ہے جسے اوپر سے کاٹ دیا گیا ہے تاکہ مسجد کی دیوار سے عمارت سر نہ نکالے۔ مزار کے اندر چھت پر اور باہر جو اشعار کندہ ہیں وہ علامہ اقبال کے دست راست چودھری محمد حسین نے ان کے بنیادی تصورات کو ذہن میں رکھتے ہوئے منتخب کیے تھے۔ کتبہ اور تعویذ ظاہر شاہ کی طرف سے ہدیہ ہیں اور پتھر میں کندہ اشعار کی خوشخطی اس زمانے کے معروف کاتب ابن پرویں رقم کی ہے۔ نئی عمارت تعمیر کرنے کے لیے یہ سب کچھ مسمار کرنا پڑے گا۔اس لئے تاریخ کا لحاظ کرتے ہوئے مزار کی موجودہ صورت کو من و عن اسی طرح رہنے دیا جائے۔
علامہ سر ڈاکٹر محمد اقبال کے صاحبزادے لکھتے ہیں کہ میری رائے مان لی گئی مگرکہا گیا کہ کم از کم مزار کے باہر کے دالان کو وسیع کر دیا جائے اور چاروں طرف گارڈز کے کھڑے ہونے کے لئے چبوترے تعمیر کر دیے جائیں۔ میں اس تجویز کے بھی خلاف تھا کیونکہ علامہ اقبال ایک درویش تھے۔ ان کی آرام گاہ پر گارڈز کی ضرورت نہ تھی لیکن میری اس بات سے اتفاق نہ کیا گیا۔ بھٹو کی رائے تھی کہ پاکستان اقبال کا خواب تھا۔
خود نوشت سوانح اپنا گریبان چا ک میں جسٹس جاوید اقبال نے لکھا ہے کہ وہ مصور پاکستان تھے۔ ان کے مزار کی زیارت کے لئے دنیا بھر کے ممالک کے سربراہان آتے ہیں لہٰذا ان کا تعلق پاکستان کی نیشن اسٹیٹ سے بھی ہے۔ سوریاست کے بانی کے طور پران کے مزار پر گارڈز اور معمول کے مطابق گارڈز کی تبدیلی کانظام ضروری ہے۔ اس تجویز کے مطابق مزار کے باہر دالان کو وسعت دے دی گئی اور گارڈز کے لئے چبوترے بھی تعمیر ہو گئے۔