یونان کا جرمنی سے 290 ارب یورو بطور ہرجانہ طلب کرنے کا فیصلہ

یونان کا جرمنی سے 290 ارب یورو بطور ہرجانہ طلب کرنے کا فیصلہ

ایتھنز: یونان کی پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ نازی جرمنی کی جانب سے دوسری عالمی جنگ کے دوران کیے جانے والے خوفناک جنگی جرائم اور یونان کو پہنچنے والے بے پناہ مالی نقصانات کے ازالے کے لیے جرمنی سے سینکڑوں ارب یورو بطور ہرجانہ طلب کیا جائے گا۔

یونان کی پارلیمنٹ کے فیصلے کے تحت  دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے 70 سال سے بھی زائد عرصے کے بعد جرمنی سے باضابطہ مطالبہ کیا جائے گا کہ برلن ایتھنز کوسینکڑوں ارب یورو بطور زر تلافی ادا کرے۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق یونان کی پارلیمنٹ نے یہ فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر کیا ہے۔

ایوان میں مسودہ قرارداد پارلیمانی اسپیکر نیکوس وُوٹسِس نے پیش کیا جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ایسے تمام سفارتی اور قانونی اقدامات کرے جو جرمنی سے مالی ازالے کی وصولی کے لیے ناگزیر ہوں۔

یونان کی پارلیمنٹ میں پیش کردہ قرار داد کے مطابق ابتدا میں یونان جرمنی سے یہ مطالبہ زبانی طور پربذریعہ  سیاسی قیادت کرے گا۔

عمومی طور پر اگر کوئی ریاست ایسا کرنے کی خواہش مند ہوتی ہے تو اسے اپنا مطالبہ تحریری طور پر جرمنی کی وزارت خارجہ کو دینا ہوتا ہے۔

یونان کے وزیر اعظم الیکسس سپراس نے اس ضمن میں پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی سے اس زر تلافی کی ادائیگی کا مطالبہ کرنا ہمارا ایسا تاریخی اور اخلاقی فرض ہے جس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی جا سکتی ہے۔

وزیراعظم کے مطابق ایتھنز کے اس مطالبے کا یونان کو درپیش مالیاتی بحران سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی یونان کی یہ خواہش ہے کہ اس طرح اس کے ذمے واجب الادا کئی سو ارب یورو کے قرضوں کی واپسی کے عمل کو تیز تر کیا جا سکے۔

الیکسس سپراس نے یہ دعویٰ کیا کہ مالیاتی بحران کے سلسلے میں بین الاقوامی بیل آؤٹ پیکجز کے بعد اب وہ مناسب ترین وقت ہے کہ یونان جرمنی سے اس زر تلافی کی ادائیگی کا مطالبہ کرے۔

یونان کے وزیراعظم سپراس 2015 کے پارلیمانی الیکشن میں یونانی عوام سے جن وعدوں کے بعد برسر اقتدارآئے تھے ان میں یہ وعدہ بھی شامل تھا کہ وہ اپنے ملک کے عوام کو دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمن دستوں کی طرف سے کی گئی زیادتیوں اور جنگی جرائم کی تلافی کے لیے ازالے کی رقوم دلوائیں گے۔

تاریخ میں درج ہےکہ دوسری عالمی جنگ کے دوران اڈولف ہٹلر کی قیادت میں جرمنی کی نیشنل سوشلسٹ کے فوجی دستوں نے اپریل 1941 سے ستمبر 1944 تک یونان پر قبضہ کیے رکھا تھا۔

یونان کی تاریخ کے مطابق اس دوران تقریباﹰ تین لاکھ یونانی باشندوں کو قتل کیا گیا تھا۔

یونان کے  صدر پروکوپس پاولوپولوس بھی اس زر تلافی کے مطالبے اور اس کی ادائیگی کے بڑے حامی ہیں۔ انہوں نے سال کے ابتدا میں زور دے کر کہا تھا کہ ایسا مطالبہ کرنا یونان کا حق ہے۔

یونان کے صدر نے تجویز دی تھی کہ اس متنازعہ معاملے میں فیصلہ یورپی سطح پراور یا پھر کسی بااختیار قانونی ادارے یا فورم کو کرنا چاہیے۔

یونان کے اس آئندہ مطالبے کے متعلق حکومتی ترجمان اشٹیفن زائبرٹ کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کو اس بارے میں بہت افسوس ہے اور گہرا احساس جرم بھی کہ نازی دور میں جرمن دستوں نے یونان پر قبضے کے وقت وہاں کیا کیا ظلم ڈھائے تھے؟ لیکن اس کے با وجود کسی مالی ازالے کی ممکنہ ادائیگی سے متعلق جرمن حکومت کی سوچ اب بھی وہی ہے جو پہلے تھی۔

حکومتی ترجمان کے مطابق برلن کا خیال ہے کہ یہ معاملہ قانونی و سیاسی سطح پر حل کیا جا چکا ہے۔

جرمنی ماضی میں یونان کی طرف سے اس بارے میں گاہے بگاہے کیے جانے والے بالواسطہ ذکر پر یہ بھی کہہ چکا ہے کہ ایتھنز کو ایسی کوئی ادائیگی نہیں کی جائے گی۔

1953 میں لندن میں طے پانے والے قرضوں سے متعلق معاہدے میں جرمنی کو ہر طرح کے زر تلافی کی ادائیگی کی ذمہ داری سے آزاد کر دیا گیا تھا۔

1990ء میں بین الاقوامی سطح پر دو جمع چار کی بنیاد پر طے پانے والے دونوں جرمن ریاستوں کے اتحاد کے معاہدے کے تحت بھی یہ باب ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے۔

خبررساں ادارے کے مطابق یونانی ماہرین کے ایک کمیشن کے مطابق ایتھنز کو برلن سے جس مالی ازالے کا مطالبہ کرنا چاہیے اس کی مالیت 290 ارب یورو تک ہو سکتی ہے۔


متعلقہ خبریں