اسلام آباد: پاکستان اور افغانستان کے درمیان واقع سرحد پر چین استقبالیہ مراکزتعمیر کرے گا جس میں پینے کے پانی اور کولڈ اسٹوریج سمیت دیگر اہم سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
یہ بات اسلام آباد میں واقع چین کے سفارتخانے میں تعینات ڈپٹی چیف مشن زہولی جیان نے امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے بتائی۔ انہوں نے بتایا کہ کابل میں تین ممالک کے وزرائے خارجہ کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں سرحدی گزرگاہوں کو ترقی دینے کے پر وگرام پر اتفاق رائے ہوا تھا۔
چین استقبالیہ مراکز کی تعمیرکے لیے سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کا بینادی مقصد دونوں ممالک کے درمیان سفر کرنے والوں کو سہولیات فراہم کرنا ہیں۔
وی او اے کو لی جیان نے بتایا کہ بیجنگ نے 2017 کے آخر میں دونوں ممالک کے درمیان دہشت گردی کی روک تھام، اسٹریٹیجک نوعیت کی بات چیت اور حقیقی تعاون کو فروغ دینے کے لیے سہ ملکی مذاكرات کا آغاز کیا تھا۔
وائس آف امریکہ کو چین کے ڈپٹی چیف مشن زہولی جیان نے بتایا کہ کولڈ اسٹویج کی سہولت دونوں ممالک کے درمیان مصروف ترین بارڈر طورخم اور چمن میں فراہم کی جائے گی جب کہ پانی کا منصوبہ شمالی وزیرستان کی گزرگاہ غلام خان خیل ٹرمینل میں لگایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں چھوٹے تاجر طورخم اور چمن کے راستے آتے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ان مقامات پر کولڈ اسٹویج موجود ہوں تو وہ اپنے پھلوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ان کا استعمال کر سکیں گے۔
وی او اے کے مطابق افغانستان میں پیدا ہونے والے 90 فی صد پھلوں اور سبزیوں کا خریدار پاکستان ہے۔
اسلام آباد نے حال ہی میں افغانستان سے آنے والی سبزیوں اور پھلوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر دی ہے جس سے ایک اندازے کے مطابق 2018 میں پاکستان کے لیے افغان تجارت میں 30 فی صد تک اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔
وائس آف امریکہ نے سرکاری عہدیداروں کے حوالے سے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان روزآنہ تقریباً 60 ہزار افراد آتے جاتے ہیں۔
عہدے داروں کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ہر روز لگ بھگ 60 ہزار افراد آتے جاتے ہیں۔