اسلام آباد: سپریم کورٹ پاکستان نے اصغر خان کیس میں رپورٹ جمع کرانے کیلئے وزارت دفاع کو چار ہفتوں کی مہلت دی ہے۔
عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں معاملے کی سماعت کی جس میں اٹارنی جنرل پاکستان اور دیگر فریقین پیش ہوئے۔
وزارت دفاع کی جانب سے رپورٹ جمع کرانے کیلئے چار ہفتوں کی مہلت کیلئے استدعا کی گئی جسے عدالت نے منظور کر لیا۔
جسٹس گلزار احمد نےدوران سماعت ریمارکس دیے کہ اصغر خان کیس میں وزارت دفاع کی رپورٹس آنے کے بعد مشترکہ رپورٹس کا جائزہ لے کر کوئی حکم جاری کریں گے۔
بینچ کے سربرا نے ریمارکس دیے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے ایف آئی اے اس کیس سے ہاتھ اٹھانا چاہتی ہے۔ جسٹس گلزارنے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وزارت دفاع ملوث افسران کا کورٹ مارشل کرنے کے بجائے انکوائری کیوں کررہی ہے؟
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کورٹ مارشل سے پہلے تفتیش قانونی تقاضا ہے۔ بینچ کے رکن جسٹس اعجازالا حسن نے استفسار کیا کہ ریٹائرمنٹ کے کتنےعرصے بعد کورٹ مارشل ہوسکتا ہے؟
جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بینکوں میں 28 سال سے زیادہ پرانا ریکارڈ نہیں اس لئے شہادت نہیں مل رہی، اگر ایسا ہے تو بینکوں کے سربراہوں کو بلا لیتے ہیں۔
بینچ کے سربراہ نے کہا کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو بھی پیسے ملے تھے، کیس میں انکا نام سامنے آیا نہ ہی ایف آئی اے رپورٹ میں نام ہے
اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایف آئی اے رپورٹ میں الطاف حسین کا نام تھا، متحدہ کے بانی پاکستان میں نہیں ہیں، برطانوی حکومت کیساتھ الطاف حسین اور چند دیگر ملزمان کی حوالگی کیلئے بات چیت جاری ہے اور بہت جلد اہم پیشرفت متوقع ہے۔
جسٹس گلزار نے کہا کہ فی الحال وزارت دفاع نے عدالت سے چار ہفتے کا وقت مانگا ہے اس لئے سماعت چار ہفتے تک ملتوی کی جا رہی ہے۔