افغان صدر کا پاکستان مخالف بیان، سوشل میڈیا پر سخت مذمت


افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر ٹوئٹ تو کردی تاہم ٹوئٹر پر صارفین نے اس کی بھرپور انداز میں مذمت کی۔

معروف اینکر پرسن حامد میر نے کہا کہ ہم پاکستانیوں کو آپ کی جانب سے داعش کو فراہم کی گئی سپورٹ پر تشویش ہے۔ ہمارے پاس شواہد موجود ہیں کہ آپ کی حکومت آپ کے مخالفین کے خلاف داعش کی مدد کررہی ہے۔ آپ نے ماسکو میں ہونے والی ملاقات کی مذمت کی کیوں کہ ستینکزئی سے لیکر کرزئی اور یونس قانونی سے لیکر زادران تک تمام شرکاء داعش مخالف تھے۔

سینئر صحافی مبشر زیدی نے اشرف غنی کا مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تقسیم کرنے کی آپ کی کوشش ناکام ہوگی۔

پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے کہا کہ اشرف غنی اپنے لوگوں کی مشکلات کو دور کرنے پر توجہ دیں۔
انہیں چاہیے کہ وہ اپنی حکومت اور نیٹو کے ساتھ مل کر افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردوں کی دراندازی کو روکنے کے لیے کام کریں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ احترام کے ساتھ اشرف غنی صاحب، پاکستان میں جمہوری طاقتیں سول اور انسانی حقوق کے حوالے سے جدوجہد کرتی رہی ہیں اور رہیں گے۔ ہمیں ایک دوسرے کے ملک میں مداخلت کے بجائے مثبت انداز میں حمایت کرنی چاہیے تاکہ امن قائم ہوسکے۔

تجزیہ کار مشرف زیدی کا کہنا تھا کہ بے چارے اشرف غنی کو ماسکو مذاکرات کے لیے دعوت نامہ تک نہ ملا۔ یہ مذاکرات اس ملک کے مستقبل کے حوالے سے تھے جس کے وہ صدر ہیں۔ تو پھر انہوں نے فیس بک پر چند لائکس کے لیے شوشہ چھوڑ دیا۔

تجزیہ کار جان اچکزئی کا سوشل میڈیا پر کہنا تھا کہ سیاسی طور پر اشرف غنی افغانستان کی وہ طاقت ہیں جو استعمال ہوچکے ہیں۔ ان کا پاکستان مخالف بیان افغان سیاستدانوں اور طالبان کی جانب سے تنہا کیے جانے پر مایوسی کا اظہار ہے۔ ان کے پاس واحد راستہ یہی ہے کہ وہ امریکہ جاکر کام کریں۔ امریکہ اپنی اسٹریٹجک ترجیحات کو ان کے کریئر گولز پر قربان نہیں کرے گا۔

ٹوئٹر صارف ارسلان خان کا کہنا تھا کہ غنی صاحب، پلیز افغانستان اور اس میں رہنے والے لوگوں پر دھیان دیجئے۔

ایک اور صارف محمد سعد صالح نے کہا کہ جن کی خود کوئی حیثیت نہ ہو، وہ بولتے ہوئے اچھے نہیں لگتے، اگر تم واقعی اپنے ملک کے بارے میں مخلص ہو تو آخر امریکی فوج کے انخلاء پر کیونکر تمہارے پسینے چھوٹنے لگے ہیں…. ؟؟ کیا تمہارے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟
اعجاز کا کہنا تھا کہ میں امن مذاکرات کے حوالے سے آپ کی مایوسی سمجھ سکتا ہوں لیکن کٹھپتلی حکومت کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔.

ٹوئٹر صارف عرفان احمد وقار کا کہنا تھا کہ کیا آپ کے اپنے ملک میں کوئی مسئلہ نہیں؟ پاکستان وہ ملک ہے جس نے لاکھوں افغانوں کو دہائیوں تک پناہ فراہم کی اس کے باوجود شکریہ ادا کرنے کے بجائے اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہے ہیں۔

چوہدری صدام وڑائچ کا کہنا تھا کہ پہلے اپنے ملک کو ٹھیک کرنے کے عمل کو یقینی بنائیں۔

حسان شاہ کا کہنا تھا کہ یہ ٹوئٹ ایک ایسی حکومت کی جانب سے آیا ہے جس کی حکمرانی صرف کابل تک محدود ہے۔

عمر انور اعوان نے کہا کہ بہتر ہے کہ آپ اپنی حکومت کے لیے اسٹینڈ لیجئے جو کہ ان دنوں مشکلات کا شکار ہے۔

ٹوئٹر صارف رانا کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ اپنے مسائل سے کس طرح نمٹیں۔ بہتر ہے آپ افغانستان پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔

روحینہ کا کہنا تھا کہ میں آپ کو آئینہ دکھانا چاہتی ہے ۔۔۔ کیا مجھے اجازت ہے؟

پاکستان کی جانب سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پہلے ہی افغان صدر کے بیان کو مسترد کرچکے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے اپنے جوابی ٹوئٹ میں میں کہا کہ اس قسم کے بیانات ملکی معاملات میں کھلی مداخلت ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان قیادت غیر ذمہ دارانہ بیانات کے بجائے اپنے مسائل پر توجہ دے ۔


متعلقہ خبریں