افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر ٹوئٹ تو کردی تاہم ٹوئٹر پر صارفین نے اس کی بھرپور انداز میں مذمت کی۔
معروف اینکر پرسن حامد میر نے کہا کہ ہم پاکستانیوں کو آپ کی جانب سے داعش کو فراہم کی گئی سپورٹ پر تشویش ہے۔ ہمارے پاس شواہد موجود ہیں کہ آپ کی حکومت آپ کے مخالفین کے خلاف داعش کی مدد کررہی ہے۔ آپ نے ماسکو میں ہونے والی ملاقات کی مذمت کی کیوں کہ ستینکزئی سے لیکر کرزئی اور یونس قانونی سے لیکر زادران تک تمام شرکاء داعش مخالف تھے۔
We Pakistanis have serious concerns about your secret support to ISIS we have evidence that your government is helping ISIS against your opponents you condemned the Moscow meeting because all the participants from Stanikzai to Karzai and Younas Qanooni to Zadran are anti-ISIS https://t.co/CfSNDu8Uvy
— Hamid Mir (@HamidMirPAK) February 7, 2019
You’re attempt to divide us will fail https://t.co/hXBGtMVp9s
— Mubashir Zaidi (@Xadeejournalist) February 7, 2019
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے کہا کہ اشرف غنی اپنے لوگوں کی مشکلات کو دور کرنے پر توجہ دیں۔
انہیں چاہیے کہ وہ اپنی حکومت اور نیٹو کے ساتھ مل کر افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردوں کی دراندازی کو روکنے کے لیے کام کریں۔
Take strong exception to this absurd statement. He wld do better to address the grievances of his own ppl and try to work with his govt and NATO to stop infiltration of terrorists across the international border from Afghanistan into Pakistan. https://t.co/X09LrJqwTs
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) February 7, 2019
پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ احترام کے ساتھ اشرف غنی صاحب، پاکستان میں جمہوری طاقتیں سول اور انسانی حقوق کے حوالے سے جدوجہد کرتی رہی ہیں اور رہیں گے۔ ہمیں ایک دوسرے کے ملک میں مداخلت کے بجائے مثبت انداز میں حمایت کرنی چاہیے تاکہ امن قائم ہوسکے۔
Respectfully @ashrafghani, Democratic forces in Pakistan have been fighting for civil,humanrights, and will continue to do so.But if we seek non-interference and positive support in each other’s countries in order to achieve peace, let’s uphold those values all round. https://t.co/LWLp7NHElt
— SenatorSherryRehman (@sherryrehman) February 7, 2019
تجزیہ کار مشرف زیدی کا کہنا تھا کہ بے چارے اشرف غنی کو ماسکو مذاکرات کے لیے دعوت نامہ تک نہ ملا۔ یہ مذاکرات اس ملک کے مستقبل کے حوالے سے تھے جس کے وہ صدر ہیں۔ تو پھر انہوں نے فیس بک پر چند لائکس کے لیے شوشہ چھوڑ دیا۔
Poor Ashraf Ghani.
Can’t get an invite to Moscow for talks about the future of the country he is president of, so makes a play for some likes on Lar o Bar Facebook.
Adorable. https://t.co/WkAd7rOMAs
— Mosharraf Zaidi (@mosharrafzaidi) February 7, 2019
تجزیہ کار جان اچکزئی کا سوشل میڈیا پر کہنا تھا کہ سیاسی طور پر اشرف غنی افغانستان کی وہ طاقت ہیں جو استعمال ہوچکے ہیں۔ ان کا پاکستان مخالف بیان افغان سیاستدانوں اور طالبان کی جانب سے تنہا کیے جانے پر مایوسی کا اظہار ہے۔ ان کے پاس واحد راستہ یہی ہے کہ وہ امریکہ جاکر کام کریں۔ امریکہ اپنی اسٹریٹجک ترجیحات کو ان کے کریئر گولز پر قربان نہیں کرے گا۔
#Ashraf Ghani is a spent force in Afghanistan politically. His anti-Pakistan rants are meant to hide frustration over isolation by Afghan politicians & Taliban. His only choice is going back 2 Intelectual work in #US. US will not sacrifice strategic priorities 4 his career gaol.
— Jan Achakzai (@Jan_Achakzai) February 7, 2019
ٹوئٹر صارف ارسلان خان کا کہنا تھا کہ غنی صاحب، پلیز افغانستان اور اس میں رہنے والے لوگوں پر دھیان دیجئے۔
Mr Ghani please focus on Afghanistan and its miserable residents.
— Arslan khan (@ArslanBlouch) February 7, 2019
ایک اور صارف محمد سعد صالح نے کہا کہ جن کی خود کوئی حیثیت نہ ہو، وہ بولتے ہوئے اچھے نہیں لگتے، اگر تم واقعی اپنے ملک کے بارے میں مخلص ہو تو آخر امریکی فوج کے انخلاء پر کیونکر تمہارے پسینے چھوٹنے لگے ہیں…. ؟؟ کیا تمہارے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟
اعجاز کا کہنا تھا کہ میں امن مذاکرات کے حوالے سے آپ کی مایوسی سمجھ سکتا ہوں لیکن کٹھپتلی حکومت کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔.
جن کی خود کوئی حیثیت نہ ہو, وہ بولتے ہوئے اچھے نہیں لگتے. اگر تم واقعی اپنے ملک کے بارے میں مخلص ہو تو آخر امریکی فوج کے انخلاء پر کیونکر تمہارے پسینے چھوٹنے لگے ہیں…. ؟؟
کیا تمہارے پاس اس کا کوئی جواب ہے.— محمد سعد صالح (@W5DUBQH7M3WJSvj) February 7, 2019
ٹوئٹر صارف عرفان احمد وقار کا کہنا تھا کہ کیا آپ کے اپنے ملک میں کوئی مسئلہ نہیں؟ پاکستان وہ ملک ہے جس نے لاکھوں افغانوں کو دہائیوں تک پناہ فراہم کی اس کے باوجود شکریہ ادا کرنے کے بجائے اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہے ہیں۔
Don’t you have enough troubles in your country. Pakistan is a country which gave refuge to millions of Afghans for decade and yet instead of being grateful you are meddling in the internal affairs of Pakistan.
— Irfan Ahmad Waqar (@IrfanAhmadWaqar) February 7, 2019
چوہدری صدام وڑائچ کا کہنا تھا کہ پہلے اپنے ملک کو ٹھیک کرنے کے عمل کو یقینی بنائیں۔
Make sure you fix yourself first
— Ch Sadam Warraich?? (@ChSadam28578675) February 7, 2019
حسان شاہ کا کہنا تھا کہ یہ ٹوئٹ ایک ایسی حکومت کی جانب سے آیا ہے جس کی حکمرانی صرف کابل تک محدود ہے۔
Shameless tweet – Concerns by a govt whose authority is restricted to Kabul only….Better stay focused within your limits#shameless
— Hassan Shah (@HassanS24541686) February 7, 2019
عمر انور اعوان نے کہا کہ بہتر ہے کہ آپ اپنی حکومت کے لیے اسٹینڈ لیجئے جو کہ ان دنوں مشکلات کا شکار ہے۔
Better to take stand for your govt first which is in doldrums.
— Umair Anwar Awan (@UmairAnwarAwan1) February 7, 2019
ٹوئٹر صارف رانا کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ اپنے مسائل سے کس طرح نمٹیں۔ بہتر ہے آپ افغانستان پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔
We know how to deal with them, better focus on Afghanistan,
— Rana (@nadeemnady) February 7, 2019
روحینہ کا کہنا تھا کہ میں آپ کو آئینہ دکھانا چاہتی ہے ۔۔۔ کیا مجھے اجازت ہے؟
I wanna offer you a Mirror
Please ! May I— Roheena (@RoheenaMurad) February 7, 2019
پاکستان کی جانب سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پہلے ہی افغان صدر کے بیان کو مسترد کرچکے ہیں۔
We reject the tweet by President Ashraf Ghani. Such irresponsible statements are only gross interference. Afghan leadership needs to focus on long-standing serious grievances of the Afghan people.
— Shah Mahmood Qureshi (@SMQureshiPTI) February 7, 2019
شاہ محمود قریشی نے اپنے جوابی ٹوئٹ میں میں کہا کہ اس قسم کے بیانات ملکی معاملات میں کھلی مداخلت ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان قیادت غیر ذمہ دارانہ بیانات کے بجائے اپنے مسائل پر توجہ دے ۔