اسلام آباد: سال 2018 بھی دہشت گردی کی زد میں رہا تاہم گزشتہ سالوں کی نسبت اس میں 70 سے 80 فیصد کمی رہی۔ دہشت گردی کے تین بڑے واقعات عام انتخابات کے دوران امیدواروں کی انتخابی مہم کے دوران ہوئے۔
پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردوں کے نرغے میں مکمل طور پر پھنس چکا تھا تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انتھک محنت اور کاوشوں کے بعد پاکستان سے دہشت گردی کا ناسور کسی حد تک کم کر دیا گیا ہے۔
پاکستان جہاں کوئی دن فائرنگ اور کوئی ہفتہ بم دھماکوں سے خالی نہیں جاتا تھا لیکن رواں سال 2018 میں پاکستان میں دہشت گردی کے گنے چنے واقعات ہی پیش اْئے ہیں۔
2 اپریل کو کوئٹہ کے علاقے شاہ زمان روڈ پر فائرنگ کے واقعے میں خاتون سمیت چار مسیحی جاں بحق ہو گئے تھے جب کہ واقع میں ایک بچی بھی زخمی ہوئی تھی۔ تمام افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا اور وہ رکشے میں سوار تھے۔
10 جولائی کو پشاور کے علاقے یکہ توت میں انتخابی مہم کے دوران خود کش حملے میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ہارون بلور سمیت 20 افراد شہید اور 50 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ ہارون بلور عوامی نیشنل پارٹی کے مرحوم رہنما بشیر بلور کے صاحبزادے تھے اور خیبرپختونخوا اسمبلی کی نشست پی کے 78 سے عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار تھے۔
ہارون بلور یکہ توت میں انتخابی مہم کے سلسلے میں منعقدہ کارنر میٹنگ میں پہنچے تو استقبال کے دوران اُن کے قریب خود کش حملہ آور نے اپنے آپ کو اُڑا لیا تھا۔
بیرسٹر ہارون بلور پشاور کے ضلع ناظم اور عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت میں وزیر اطلاعات بھی رہ چکے تھے۔ ہارون بلور پر 2016 میں بھی حملہ ہوا تاہم وہ محفوظ رہے تھے۔
13 جولائی کو بنوں کے علاقے حوید میں سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اکرم خان درانی پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں چار افراد جاں بحق اور 30 سے زائد زخمی ہو گئے تھے تاہم اکرم درانی حملے میں محفوظ رہے تھے۔
سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا انتخابی جلسے میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔ اکرم درانی متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست 35 سے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے مدمقابل تھے۔
14 جولائی کو بلوچستان کے ضلع مستونگ میں انتخابی جلسے کے دوران خود کش حملے میں سراج رئیسانی سمیت 125 سے زائد شہید اور 150 سے زائد ہی زخمی ہو گئے تھے۔ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کے بھائی سراج رئیسانی بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی 32 سے بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار تھے۔
سراج رئیسانی پر ہونے والے خود کش حملے کی ذمہ داری کالعدم داعش نے قبول کی تھی۔
03 اکتوبر کو کراچی کے علاقے ڈیفنس میں رات گئے ایک گاڑی میں دھماکہ ہوا تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا، دھماکہ اتنا شدید تھا کہ گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھی۔
17 اکتوبر کو میاں چنوں میں نامعلوم ملزمان نے فائرنگ کر کے پاکستان تحریک انصاف کے مقامی رہنما اللہ دتہ کو قتل کر دیا تھا۔ مقتول رہنما موٹر سائیکل پر اپنے گھر جا رہے تھے کہ جمال چوک کے قریب موٹرسائیکل سوار ملزمان نے نشانہ بنایا۔
25 اکتوبر کو کوئٹہ کے تھانہ ائر پورٹ کی حدود میں واقع کلی شابو میں قائم نجی اسکول پر نامعلوم ملزمان نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں اسکول گراؤنڈ میں کھیلنے والی ایک بچی سمیت چار طلباء زخمی ہو گئے تھے۔
16 نومبر کو کراچی کے علاقے قائد آباد میں بم دھماکے سے دو افراد جاں بحق اور آٹھ زخمی ہو گئے تھے۔ جائے وقوع سے ایک اور ٹائم ڈیوائس بھی برآمد ہوئی تھی جسے بم ڈسپوزل اسکواڈ نے ناکارہ بنا دیا تھا۔
18 نومبر کو کوئٹہ کے علاقے جی پی او چوک کے قریب زرغون روڈ پر نامعلوم موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے سابق ایس پی نعیم کاکڑ کو شہید کر دیا تھا.
23 نومبر کو کراچی کے پوش علاقے کلفٹن میں واقع چینی قونصل خانے پر تین مسلح افراد نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں ویزے کے حصول کے لیے کوئٹہ سے آئے باپ بیٹا اور سیکیورٹی پر مامور دو پولیس اہلکار بھی شہید ہوئے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے چینی قونصل خانے کا گھیراؤ کر کے آپریشن کیا اور قونصل خانے پر حملہ کرنے والے تینوں حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا جب کہ حملے کے کچھ دیر بعد ہی کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے حملہ آوروں کی تصاویر جاری کر دی تھیں۔
9 دسمبر کو کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں ایم کیو ایم پاکستان کے زیر اہتمام محفل میلاد کے دوران دھماکے کے نتیجے میں پارٹی کنوینر اور وفاقی وزیر برائے آئی ٹی خالد مقبول صدیقی کے کوارڈینیٹر سمیت چھ افراد زخمی ہوگئے تھے۔
23 دسمبر کو کراچی کے علاقے ناظم آباد رضویہ عثمانیہ سوسائٹی میں دہشت گردوں نے پاک سرزمین پارٹی کے دفتر پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں پارٹی کے دو کارکنان فہد اور اظہر جاں بحق اور دو افراد زخمی ہو گئے تھے۔
پولیس کے مطابق تین موٹر سائیکلوں پر سوار چھ ملزمان نے فائرنگ کی تھی۔ واقع کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا تھا۔
25 دسمبر کو کراچی کے علاقے ڈیفنس میں ایم کیو ایم رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی سید رضا علی عابدی کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ سید رضا علی عابدی اپنی گاڑی پر جونہی گھر کے دروازے پر پہنچے تو دو موٹرسائیکل سوار ملزمان نے اُن پر فائرنگ کر دی۔ رضا علی عابدی کو چار گولیاں لگیں۔
27 دسمبر کو کراچی کے علاقے پاک کالونی بریگیڈ تھانے کی حدود میں نامعلوم ملزمان نے فائرنگ کر کے ایک پولیس اہلکار سہیل کو شہید اور پاک کالونی کے اہلکار فرہاد کو زخمی کر دیا تھا۔ دونوں اہلکار مختلف تھانوں میں تعینات تھے اور ایک ہی موٹر سائیکل پر جا رہے تھے۔
ماہ اکتوبر کے بعد کراچی میں دہشت گردی کے واقعات میں ایک بار پھر تیزی آ گئی ہے جو سیکیورٹی اداروں اور موجودہ حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے۔