اسلام آباد: رہنما پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی) فرحت اللہ بابر نے کہا کہ بظاہر وزیراعظم عمران خان کی نیت پر شک نہیں ہے مگر گورننس کی قابلیت ہونے اور نیت میں بہت فرق ہے۔
ہم نیوز کے پروگرام “پاکستان ٹونائٹ” میں میزبان ثمرعباس کے ساتھ اہم گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلاشبہ آرڈیننس قانون سازی کی ایک شکل ہے لیکن صحافیوں سے گفتگو کے دوران عمران خان کا یہ بات کہنا خطرناک ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتوں کی حمایت نہیں ہے تو حکومت قانون سازی کے لیے آرڈیننس کی جانب جائے گی۔
حکومتی جماعت پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے حوالے سے پی ٹی آئی نے عملی طور پر ایک قدم آگے نہیں بڑھایا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ محض دعووں سے گورننس نہیں ہوتی، پی ٹی آئی نے ایجنڈا تو بنا لیا لیکن کوئی عملی پالیسیوں کی سمت واضح نہیں کی۔
رہنما پی پی پی کا کہن اتھا کہ پارٹی پر دباؤ ڈالنے کے لیے تاکہ یہ جماعت سیاسی کارروائیاں جاری نہ رکھ سکے اور ملک میں اپنا مثبت تاثر کھو دے، پی پی پی رہنماؤں پر بے بنیاد مقدمات کیے جا رہے ہیں۔
فرحت اللہ بابر نے میزبان کے سوال کے جواب میں مزید کہا کہ فرد واحد اختیارات کا استعمال نہ کرے۔ نیب چیئرمین بطور تین یا زیادہ ممبران کے ایک کمیٹی کی شکل میں فیصلے کرے تو شاید احتساب شفاف ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیب کو ہمیشہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ 1973 سے اب تک پاکستان میں کسی حکومت نے احتساب کو اتنا سنجیدگی سے نہیں لیا جیسے لینا چاہیے تھا۔
اپوزیشن رہنما نے کہا کہ نیب انتقامی کارروائیوں کا ایک ادارہ ہے، نیب حکومتی جماعت کی انا کی بنا پر مقدامات بنا رہا ہے۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پی پی پی نے ہمیشہ اس بات کی حمایت کی ہے کہ سرکار سے تنخوا لینے والے ہر انسان کا یکساں احتساب ہونا چاہیے۔ سیاسی اختلافات ایک جانب مگر جس احتساب سے عوام اور ملک کا فائدہ ہو اس میں پی پی پی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔
دوسری جانب پروگرام میں موجود مہمان اوروزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ یہ بات بلاجواز ہے کہ احتساب کا عمل حکومتی جماعت کے رہنماؤں کے لیے مختلف ہے اور اپوزیشن رہنماؤں کے لیے مختلف ہے۔ ایسا نہیں ہے، علیمہ خان وزیراعلیٰ پنجاب نہیں تھیں یہ ہی ان کے پاس کوئی حکومتی عہدہ رہا جو شہبازشریف اپنا موازنہ ان کے ساتھ کر رہے ہیں۔
شہزاد اکبر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کو اب جا کر احساس ہوا کہ نیب ایک برا ادارہ ہے گزشتہ 35 سال تک حکومت کرتے ہوئے پی پی پی اور ن لیگ کو تو یہ احساس کیوں نہیں ہوا۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ہم پالیسی سازی کر کے ایسی قانونی اصلاحات لائیں گے کہ کل کو اگر ہماری حکومت نہ ہوئی تو بھی دیگر جماعتیں اس کو نافذ العمل کر کے بہتر قانونی کارروائیاں کر سکیں گی۔
ایک سوال کے جواب میں شہزاد اکبر نے کہا کہ 26 بیرون ممالک میں جو پیسہ غیرقانونی طریقے سے گیا ہے اس کو واپس لانے کے لیے حکومت مخصوص حکومتی ٹیکس کے تحت کام کرے گی۔ عوام دیکھے گی کہ کیسے اربوں روپے واپس ملک میں لائیں جائیں گے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ حکومتی جماعت کی کوشش ہے اصلاحات کے بعد قوانین مزید مضبوط ہوں اور انصاف پر مبنی فیصلے ہوں۔
رہنما تحریک انصاف نے اپنی جماعت کی حمایت میں بولتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کا یہی موقف رہے گا کہ احتساب کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے نیب یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خودمختاری چیلنج نہ ہو۔