دنیا اب واحد سپر پاور کے دور سے نکل رہی ہے، معید یوسف


اسلام آباد: معروف تجزیہ کار معید یوسف نے کہا ہے کہ دنیا اب واحد سپر پاور امریکہ کے دور سے نکل رہی ہے، روس اور چین میدان میں آ رہے ہیں، پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلق بہتر بنائے۔

ہم نیوز کے پروگرام ’’ایجنڈا پاکستان‘‘ کے میزبان عامر ضیاء سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کہ امریکہ میں مختلف لابیاں کام کرتی ہیں۔ ایک گروپ چین کے حوالے سے پاکستان کو دیکھتا ہے اور پاکستان کی حمایت نہیں کرنا چاہتا۔ امریکہ کو گوادر کی بندرگاہ سے یہ خدشات ہیں کہ کہیں یہ فوجی بندرگاہ نہ بن جائے۔

معید یوسف کا کہنا تھا کہ تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ہمارا جو معاہدہ ہوا ہے اسے پوری دنیا نے دیکھا ہے، ہمیں خود کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک پر ہم بہت شور کرتے ہیں اس سے ہمارے مخالف بھی اس منصوبے کو ناکام بنانے پر تل جاتے ہیں، ہمیں پرائیویٹ سیکٹر سے لوگ لانے ہوں گے۔

معید یوسف نے کہا کہ ہم ایک فائر فائٹر قوم بن چکے ہیں ہمیں اس کے بجائے طویل المدت منصوبوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب پروگرام میں شریک ماہر اقتصادیات عابد حسن نے کہا کہ جب ہم کسی ملک کے پاس پیسے مانگنے جاتے ہیں تو وہ ایک طرح کی بھیک ہوتی ہے جبکہ آئی ایم ایف جیسے بین الاقوامی ادارے کے پاس جانا ایک پروفیشنل طریقہ ہے، چین سے ملنے والی امداد کی تحسین کرنی چاہیئے لیکن ہمیں ایسے شعبوں میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری چاہیئے جن کا تعلق برآمدات سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین کا ماڈل پاکستان میں بالکل نہیں چل سکتا۔ چین نے اپنے اندر تو کرپشن کے خلاف مہم چلائی ہے لیکن ملک سے باہر ان کے پراجیکٹس پر بہت اعتراضات ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں امریکہ اور چین کے درمیان جاری لڑائی میں اپنا نقصان نہیں کرنا چاہیئے ۔ پاکستان کے لیے مشکل دن ہیں، ان مشکلات سے نکلنے کے لیے کسی ایک کیمپ کا حصہ نہیں بننا چاہیئے۔ امریکہ ایسٹ ویسٹ کاریڈور کی بات کرتا ہے، ہمیں مختلف ممالک کو سی پیک میں شامل کرنا پڑے گا۔

پروگرام میں شریک عابد سلہری کا کہنا تھا کہ صرف پاکستان کو چین کی ضرورت نہیں ہے بلکہ چین بھی پاکستان پر انحصار کر رہا ہے۔ ملائشیا نے 26 ارب ڈالر کا پروگرام معطل کر دیا ہے، میانمار نے ایک پروگرام 7 اعشاریہ تین ارب ڈالر سے کم کر کے ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کر دیا ہے۔ اس وقت چین کو ضرورت ہے کہ سی پیک کامیاب ہو تاکہ دنیا میں اس کا تاثر بہتر ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ غربت ختم کرنے کے لیے جو ماڈل چین نے اختیار کیا ہے اسے ہم اختیار نہیں کر سکتے۔ چین نے پچھلے 5 سالوں میں 440 نائب وزرا کو کرپشن میں سزائے موت دی ہے جبکہ پاکستان میں آج تک کسی کو سزا نہیں ملی۔

پاک چین تعلقات کے مستقبل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں چین سے مطالبہ کرنا چاہیئے کہ وہ ہمیں ٹیکنالوجی ٹرانسفر کرے تاکہ زراعت کو ترقی دی جا سکے، اسی طرح ہمیں چینی مارکیٹ تک رسائی بھی مانگنی چاہیئے۔ چین دو کھرب ڈالر کی ایکسپورٹ مارکیٹ ہے جس میں سے پاکستان صرف ایک اعشاریہ 75 ارب ڈالر ہے۔ ہمیں آدھا فیصد بھی حصہ مل جائے تو ہماری برآمدات میں دس ارب ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے جاپان، جنوبی کوریا اور یورپ کو نظرانداز کیا ہوا ہے حالانکہ وہاں سے بہت سی سرمایہ کاری ممکن ہے۔


متعلقہ خبریں