اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد تبادلہ کیس میں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی کا معافی نامی مسترد کرتے ہوئے تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم(جے آئی ٹی) تشکیل دے دی ہے۔
سپریم کورٹ میں انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد کے تبادلے پر از خود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے تشکیل دی گئی جے آئی ٹی میں انٹیلی جنس بیورو(آئی بی) سے احمد رضوان، ایف آئی اے سے واعظ میر اور نیب کے ڈائریکٹر اسلام آباد کو شامل کیا گیا ہے۔
جے آئی ٹی اس بات کی تحقیقات کرے گی کہ اعظم سواتی نے جاییداد اور اثاثے کیسے بنائے۔ کمیٹی 14 روز کے اندر اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرائے گی۔
اعظم سواتی کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ علی ظفر آپ ہر بڑی شخصیت کی طرف سے عدالت میں پیش ہونے آجاتے ہیں، یہ بتائیں کہ آپ کا لائسنس کتنے دنوں کےلیے معطل کروں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اس معاملے پر جے آئی ٹی تشکیل دے رہے ہیں، جے آئی ٹی میں نیب، آئی بی اور ایف آئی اے کے بہترین افسران شامل کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے میں آرٹیکل 62 ون ایف کا جائزہ بھی لیں گے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کی بے حد عزت کرتے ہیں، طاقت کا اس طرح استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
آئی جی اسلام آباد جان محمد بھی عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد سے استفسار کیا کہ آپ نے پرچہ درج کیوں نہیں کیا جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں ملک سے باہر تھا۔
آئی جی اسلام آباد تبادلہ کیس
وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اعظم سواتی کا فون اٹینڈ نہ کرنے پر آئی جی اسلام آباد جان محمد کو عہدے سے ہٹادیا گیا تھا۔ اس سے قبل سپریم کورٹ میں آئی جی اسلام آباد تبادلہ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے تبادلے کا حکم معطل کر دیا تھا۔
چیف جسٹس ثاقب نثارنے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری داخلہ کو عدالت طلب کیا تھا۔
اس سے قبل سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے عدالت میں پیش ہو کر موقف اختیار کیا تھا کہ وزیر اعظم آفس آئی جی کی کارکردگی سے مطمئین نہیں تھا، ان کے تبادلے کا معاملے کافی عرصے سے چل رہا تھا۔