زرمبادلہ کے ذخائر گزشتہ چار سالوں کی کم ترین سطح پر


کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر گزشتہ چار سالوں کی کم ترین سطح پر آگئے ہیں۔

اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ہفتے 28 اکتوبر تک زرمبادلہ کے ذخائر میں 627.7 ملین کی کمی ہوئی اور وہ  8.4 بلین ڈالر رہ گئے ہیں، گزشتہ برس اسی عرصے میں یہ ذخائر 9.03 بلین ڈالر تھے۔

2018-19 کے مالی سال کے پہلے چار ماہ کے دوران ذخائر میں 1.07 بلین ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے 2017 میں بھی چند بڑی ادائیگیاں کی تھیں جن میں پاکستان ساورن بانڈ کے ضمن میں 780 ملین ڈالر کی ادائیگیاں شامل تھیں جن کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھا تھا۔

اس صورتحال میں معاشی اور کاروباری شخصیات یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ حکومت اپنی پالیسی واضح کرے کیونکہ حالات ہر گزرتے لمحے کے ساتھ پیچیدہ تر ہوتے جا رہے ہیں۔

اسٹیٹ بینک کے ماہر اقتصادیات عابد قمر کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر معیشت کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ سارے مسائل بیلنس آف پیمنٹ کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کافی عرصے سے کرنٹ اکاوٗنٹ خسارے سے متعلق مسائل کا سامنا کر رہی ہے۔ پاکستانی معیشت کو درآمدات اور برآمدات کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے۔

عابد قمر کا کہنا تھا کہ حکومت ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشش کر رہی ہے اور اس حوالے سے جلد مثبت پیش رفت سامنے آئے گی۔

اس تناظر میں سسٹین ایبل ڈیویلمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) سے وابستہ ماہر معاشیات ڈاکٹر ساجد امین نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر اس لیے کم ہو رہے ہیں کہ یہ مصنوعی طور پر بنائے گئے تھے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں درآمدات بڑھ رہی تھیں اور برآمدات کم ہو رہی تھیں مگر ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی روپے پر دباوٗ پڑھتا تھا حکومت ڈالرکو مارکیٹ میں پھیلا کر روپے کی قدر میں کمی کو روک دیتی تھی۔

ڈٓاکٹر ساجد نے بتایا کہ ہم نے ابھی کوئی بیرونی ادائیگی نہیں کی، موجودہ ذخائر میں کمی تیل کی قیمتوں اضافے کے باعث ہوئی ہے۔ پانچ سال قبل روپے کی قدر میں بتدریج کمی لائی جاتی تو اتنے سنگین حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

انہوں نے کہا کہ منصوبہ بندی کے ذریعے مسائل حل ہو سکتے تھے، اب بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جب سے روپے کی قدر میں کمی آئی ہے اسی وقت سے  برآمدات میں اضافہ ہوا ہے اور درآمدات کے بڑھنے کی رفتار میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

ڈاکٹر ساجد نے مزید کہا کہ گزشتہ چار برسوں میں بھارتی روپے میں 29 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ پاکستانی روپے میں پچھلے کچھ عرصے میں 30 فیصد کمی آئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں معاشی اعتبار سے حالات معمول پر ہیں لیکن پاکستان میں اس سے ہیجان پیدا ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں یہ عمل بتدریج ہوا ہے جبکہ پاکستان میں اسے مصنوعی انداز میں روکا گیا اور جب ایک دم کمی کی گئی تو معیشت پر شدید منفی اثرات مرتب ہوئے۔


متعلقہ خبریں