کچھ چیزیں دیکھنے میں تو بہت اچھی لگتی ہیں لیکن ان سے کسی کو شاذونادر ہی کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ اس حوالے سے بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں جیسے کسی عمارت کے صحن میں لگا ایک خوبصورت فوارہ جو اپنی تمام تر خوبصورتی کے باوجود ایک نلکے کی طرح کارآمد نہیں ہوسکتا۔
یہ بحث کی جا سکتی ہے کہ ایک فوارہ بیشک نلکے کی طرح کارآمد نہیں لیکن پھر بھی اس سے پانی تو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی تمام تر خوبصورتی کے باوجود بالکل بیکار ہوتی ہیں، جیسے کہ پلاسٹک کے پھل۔
پلاسٹک کے پھل نہ صرف بیکار ہوتے ہیں بلکہ اگر ان کو اصل پھل سمجھ کر کھانے کی کوشش کی جائے تو یہ آپ کی صحت کے لیے بھی انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
صحافت ہو، سیاست ہو یا کوئی اور شعبہ، ویسے تو فریب نظر پلاسٹک کے پھل ہمیں ہر جگہ نظر آتے ہیں لیکن صحافت اور نام نہاد جمہوری پلاسٹک کے پھلوں میں خاص قربت، نظریاتی ہم آہنگی اور تعاون دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ دونوں اپنی لگی لپٹی باتوں سے عوام کو گمراہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
یہ ایک دوسرے کو اصل پھل ثابت کرنے کے لیے زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں۔ جب صحافت کے پلاسٹک کے پھلوں کی جھوٹی خبروں پر کوئی سوال اٹھائے یا پھر ان کی غیرمعمولی دولت پر سوال اٹھے، ٹیکس کی بات ہو تو یہ یک زبان ہو کر اسے آزادی رائے اور آزادی صحافت پر حملہ قرار دیتے ہیں۔
اسی طرح جب جمہوری پلاسٹک کے پھلوں کی بدعنوانی پکڑی جائے اور ان کے احتساب کی بات کی جائے تو یہ فوراً جمہوریت پر حملے کا واویلا شروع کر دیتے ہیں۔
جمہوری پلاسٹک پھلوں نے آج تک عوامی مسائل پر کبھی کوئی بات نہیں، عوام کے ساتھ تھانوں میں، سرکاری ہسپتالوں اور دفاتر میں جیسا برا سلوک کیا جاتا ہے اس پر انھوں نے کبھی نہ سینیٹ میں اور نہ ہی کبھی قومی اسمبلی میں آنسو بہائے ہیں۔
ان کو جب بھی موقع ملتا ہے یہ ریاست پاکستان کے خلاف ہی بولتے ہیں۔ پاکستان کے مخالفین کے بیانیے کو معتبر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان جمہوری پلاسٹک کے پھلوں کے بقول ایک آمر کو ڈیڈی کہنے والا سب سے بڑا جمہوری لیڈر تھا، دولت سے سیاست کو خریدنے والا سب سے بڑا نظریاتی ہے، کرپشن کے الزامات میں ایک دھائی تک جیل میں رہنے والا دراصل عوام کی جنگ لڑ رہا ہے، ملک کی سب سے بڑی عدالت میں جعل سازی کرنے والی قوم کے ضمیر کی آواز ہے اور ایک مشکوک وصیت کی بدولت پارٹی کا چیئرمین بنے والا شخص ہی “سلیکٹڈ” لوگوں کو بے نقاب کر سکتا ہے۔
جمہوری پلاسٹک کے پھلوں میں سے چند ایک منفرد مقام رکھتے ہیں، کسی کی چادر اوڑھنے کا اور کسی کے بالوں کا سٹائل مشہور ہے تو کوئی ریاست پاکستان کے خلاف زہر اگلنے میں اپنی مثال آپ ہے۔
آج انہی ستاروں میں سے ایک درخشاں ستارے کو چیئرمین سینٹ بنوانے کی کوشش کرنے والے سازشی عناصر کو منہ کی کھانی پڑی۔
اب اگلے چند دن تک آپ صحافت کے پلاسٹک کے پھلوں کی گریہ و زاری اور آہ و بکا سنیں گے۔