ہمارے قبائلی علاقے سابق ہو چکے تھے، اللہ کا شکر ہے کہ اب الیکشن بھی ہو گئے۔ جیتنے والے جیت گئے اور ہارنے والے ہارے۔ کچھ روز اس ہار جیت کا معاملہ گرم رہے گا اور سچ یہ ہے کہ گرم رہنا بھی چاہئے کہ اس کے بغیر فتح و شکست کی ہمیں عادت بالکل نہیں، لیکن سچ یہ بھی ہے کہ کچھ روز یہ معاملہ گرم رہے گا پھر ہمیں اس کی عادت ہو جائے گی۔ اس کے بعد کچھ ٹھوس حقائق سے ہمارا واسطہ پڑے گا۔ اس سے پہلے کہ ان ٹھوس حقائق کا جادو ہمارے سر پر چڑھ کر بولے، آئیے! ان معاملات پر کچھ غور کر لیں۔
ذہن پر ذرا زور دیں تو قبائلی علاقوں کے نام کا معاملہ بھی ایک طرح سے ہمارے ماضی کے صوبہ سرحد جیسا ہی ہے۔ انگریز نے اسے شمال مغربی سرحدی صوبے کا نام دیا۔ جواں مردوں کے اس عظیم الشان خطے کی نسلی اور لسانی شناخت اس انتظامی نام میں کہیں گم ہو کر رہ گئی۔
کچھ ایسا ہی حادثہ ہمارے قبائلی علاقوں کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ سب سے پہلے انگریز نے یہاں کے لوگوں کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت ایف سی آر یعنی فرنٹیئر کرائم ریگولیشنز متعارف کرائے۔ یوں یہاں ایک نظام قائم ہو گیا۔ اس سے قبل یاغستان جیسا خوب صورت اور افسانوی نام رکھنے والایہ علاقہ، علاقہ غیر کی عرفیت سے بدنام تھا جس کی بازگزشت اب بھی کبھی کبھار سنائی دی جاتی ہے۔
قیام پاکستان کے بعد جب یہ علاقے انتظامی اعتبار سے وفاق اور صوبے کے سپرد ہوئے اور فاٹا یعنی وفاق کے زیر انتظام علاقے اور پاٹا یعنی صوبے کے زیر انتظام علاقوں کے نام سے معروف ہوئے تو یہ نام ان کے ساتھ چپک کر رہ گیا۔ اب بھی جبکہ یہ علاقے انتظامی اعتبار سے پاکستان کا حصہ بن چکے ہیں، اِن کا ذکر کرتے ہوئے لمحے بھر کے لیے ذہن سوچتا ہے کہ انہیں اب کس نام سے منسوب کیا جائے؟
اب اگر جرات مندانہ قدم اٹھا کر یہاں کے لوگوں کو برابر کا شہری تسلیم کر ہی لیا گیا ہے اور ایک فرد ایک ووٹ کے مسلمہ بین الاقوامی اصول کا نفاذ بھی ہو گیا ہے تو ایک ہمت اور بھی کر لینی چاہئے اور علاقے کا اصل نام بھی بحال کر دینا چاہئے۔ یہ فیصلہ مقامی لوگوں کے اعتماد کی بحالی کا ذریعہ بھی بنے گا اور سیاحت کے فروغ میں بھی معاون ثابت گا کیوں کہ یاغستان کے لفظ میں ایک کشش اور جادو ہے۔ کیا عجب کہ ہمارے نومنتخب اراکین صوبائی اسمبلی جب ایوان میں قدم رکھیں تو اس جانب بھی توجہ دیں۔
آنے والے دنوں میں ہمارے اس خوب صورت علاقے میں ایک اور چیلنج بھی سامنے آنے والا ہے۔ بہتر ہو گا کہ اسے ایک مثال سے سمجھا جائے۔ ستر کی دہائی میں جب سوات کی ریاست کو والیِ سوات کی تحویل سے لے کر بہاول پور کی طرح ملک میں ضم کیا گیا تو ایک عظیم خلا نے جنم لیا جس کا تعلق انتظام ریاست اور انتظامی ثقافت سے تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بہاول پور اور دیگر ریاستوں کی طرح یہاں بھی پوری حکمت کے ساتھ ریاست کی عمل داری کو یقینی بنایا جاتا لیکن بعض قانونی، سیاسی اور مفاداتی مصالح کے سبب یہ عمل مکمل نہ ہوسکا بلکہ اب تک مکمل نہیں ہوا۔
اس خلا کے سبب سوات وغیرہ میں نہ والیِ سوات جیسا انتظام ریاست برقرار رہا اور نہ ریاستِ پاکستان کا وہ نظام رائج ہو سکا جس کے تحت پورا ملک چل رہا تھا۔ اس خلا نے بہت سے مسائل پیدا کیے۔ صوفی محمد اور اس کے داماد ملا فضل اللہ عرف ملا ریڈیو کے اٹھائے ہوئے طوفان کی جڑیں بھی بہت حد تک اسی خلا میں تلا ش کی جا سکتی ہیں (یہاں بہت حد تک اس لیے کہا گیا ہے کہ عسکریت پسندی کے اس تکلیف دہ رجحان کی پرورش کی ذمہ دار ی اور بھی کئی داخلی اور بین الاقوامی عوامل پر عائد ہوتی ہے)۔ وطن عزیز کے ان سابق قبائلی علاقوں کے مسائل بھی بہت حد تک سوات جیسے تجربے کے مماثل ہیں۔
ہمیں بحیثیت قوم ضرور اپنی چند کامیابیوں پر فخرکرنا چاہئے کہ پاکستان نے انتہائی جرأت مندانہ اقدامات کر کے یہاں کے لوگوں کو دنیا کے برابر لاکھڑا کیا اور اس سے پہلے دہشت گردی کے پھیلے ہوئے مہیب اثرات کا خاتمہ اپنے لہوکا خراج دے کر اور اپنی قوم کا پیٹ کاٹ کر کیا۔ یہ کامیابی تاریخ میں یقینا سنہری حروف میں لکھی جائے گی لیکن اب ضروری ہے کہ ذرا سنجیدگی کے ساتھ اُن عوامل کا جائزہ بھی لیا جائے کہ جب دنیا متمدن ہو رہی تھی اور ہر ذی روح کو ایک شہری جان کر اس کے احترام کے تصور کو عملی شکل دی جارہی تھی، اُس وقت یہاں کیوں یہ تبدیلی رونما نہ ہوسکی؟
سبب اس کا یہ ہے کہ ایف سی آر کے تحت جب انگریز نے اس خطے کے لوگوں سے معاہدہ کیا تو اس حقیقت کے باوجود کہ یہ لوگ صدیوں بلکہ قرنوں سے یہاں موجود تھے لیکن قانون اس سرزمین کو ان کی ملکیت نہیں بلکہ بادشاہ یعنی ملکہ برطانیہ کی ملکیت تصور کرتا تھا۔ ایف سی آر کے تحت یہ سرزمین قبائل کے سپرد کردی گئی۔
یہاں یہ نکتہ بہت توجہ سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ زمین انفردی ملکیت میں نہیں بلکہ قبائل کی اجتماعی ملکیت میں تھی، گویا اجتماعی نظام تھا جس کے سبب اس علاقے کے ہر فرد کو ووٹ کا حق حاصل نہ ہو سکا۔ اب جب کہ ووٹ کا حق حاصل ہو گیا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس عظیم تبدیلی کے بعد بھی فرد ابھی تک اُسی اجتماعی نظام کا حصہ رہے گا جس کے خاتمے کے بغیر نہ قبائلی نظام میں کمزوری پیدا ہوتی ہے اور نہ ایک فرد شہری کی اُس تعریف پر پورا اترتا ہے جس پر دنیا کا نظام چل رہا ہے؟
لہٰذا اس بحث کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ایف سی آر کے خاتمے کے بعد سابق قبائلی علاقوں کی زمین ایک خود کار نظام کے تحت نظری طور پر ریاست کی تحویل میں جا چکی ہے (عملی صورت جو بھی ہو) اور قانونی طور پر یہاں بسنے والا ہر قبیلہ بے زمین ہو چکا ہے۔ اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے پاس اس پیچیدہ سوال کا کیا جواب ہے؟
اس قضیے کو مزید آسانی کے ساتھ یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ جدید ریاست کا نظام بندو بست اراضی پر استوار ہوتا ہے۔ کیا ہم نے بندو بست اراضی کے پیچیدہ مسئلے کے حل کا کوئی نظام تیار کر لیا ہے؟ جب تک ہمارے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہو گا ریاست کی رٹ سوالیہ نشان بنی رہے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کے تلخ تجربات سے بچنے کے لیے جتنی جلد ہوسکے، اس خلا کو پُر کرلیا جائے۔