فائیو جی ٹیکنالوجی ہماری زندگی میں کیا انقلاب لائے گی؟

فائیو جی ٹیکنالوجی کے انقلاب

فائل فوٹو


ففتھ جنریشن ٹیکنالوجی(5 جی) کے حصول کے لیے اس وقت دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اپنا پورا زور لگا رہی ہیں کیوں کہ اس میں کامیابی کا مطلب مسقتبل میں دنیا پر حکمرانی کرنے کے مترادف ہوگا۔

اس ٹیکنالوجی کی رفتار موجودہ 4 جی سروس سے کئی گنا تیز ہوگی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے دو گھنٹے کی فلم جو اب 7 منٹ میں ڈاؤن لوڈ ہوتی ہے اس کے لیے صرف چھ سیکنڈ درکار ہوں گے۔

مذکورہ ٹیکنالوجی ٹوسٹر سے لے کر ٹیلیفون اور الیکٹرک کار سے لے کر بجلی کے گرڈ اسٹیشن تک ہر چیز کو سپورٹ کرے گی۔

فائیو جی کیساتھ سب سے بڑی تبدیلی ذرائع مواصلات میں آئے گی جس سے خودکار گاڑیوں میں محفوظ سفر ممکن ہوسکے گا۔ کاریں اور بسیں ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ بھی کرسکیں گی۔

یہ بھی پڑھیں: 5جی کی نیلامی سے 7.3 ارب ڈالر کی آمدنی

اس ضمن نے چین نے حال ہی میں دو کلومیٹرکی سڑک پر فائیوجی سے چلنے والی گاڑی کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔

نئی ٹیکنالوجی شعبہ طب میں بھی انقلاب کا سبب بنے گی جس سے ڈاکٹر ہزاروں میل دور بیٹھ کر مرض کی تشخیص اور علاج کر سکیں گے۔ اس کے استعمال سے اربوں کی تعداد میں لوگوں کو صحت کی بہتر سہولیات فراہم کی جاسکیں گی۔

ڈاکٹر ہزاروں میل دور بیٹھ کر پیچیدہ آپریشنز انجام دے سکیں گے۔ اس ضمن میں رواں سال چین کے ایک ڈاکٹر نے تین ہزار کلو میٹر دور بیٹھ کر مریض کے دماغ کی کامیاب سرجری کی۔

فائیوجی کی مدد سے صنعتی شعبے میں خودکار مشینوں کا استعمال بڑھ جائے گا اور روبوٹ لاکھوں افراد کی جگہ لے لیں گے۔

کیشیئر، سیکیورٹی گارڈز اور ٹیکسی ڈرائیورز کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی اور ٹینکنالوجی کی انڈسٹری میں ملازمتوں کے مزید مواقع پیدا ہوں گے۔

اس کی مدد سے مصنوعی ذہانت اور ورچوئل ریالٹی روز مرہ زندگی کا حصہ بن جائیں گے۔ ٹیلی کمیونیکیشن اور بائیوٹیکنالوجی اربوں روپے کی انڈسٹری بن جائے گی۔

نئی ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے اس وقت امریکہ، چین، جاپان اور جنوبی کوریا سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ چین کی کمپنی ہواوے کا دعویٰ ہے کہ اسے اس معاملے میں دیگر کمپنیوں پر سبقت حاصل ہے۔

گزشتہ صدی میں امریکہ کو ٹیکنالوجی میں پوری دنیا پر سبقت حاصل رہی ہے جس کی وجہ سے اس یورپی ملک کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہوا۔ ٹیکنالوجی کی وائرلیس انڈسٹری سے امریکہ کے 47 لاکھ افراد وابستہ ہیں اور سالانہ 47 ارب ڈالر کی کمائی ہوتی ہے۔

فائیوجی کے استعمال سے2035 تک 3.5 کھرب ڈالر سالانہ آمدنی ہوگی اور 22 کروڑ ملازمتیں پیدا ہوں گی جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس ٹیکنالوجی دوڑ میں شکست سے کھربوں ڈالر کا خسارہ اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔

چین نے 2015 میں اس ٹیکنالوجی کے ڈھانچے پر24 کھرب ڈالر خرچ کیے اور فائیوجی کی سہولت فراہم کرنے والے 3 لاکھ 50 ہزار ٹاور لگائے جب کہ امریکہ کے پاس صرف 30 ہزار ٹاور ہیں۔


متعلقہ خبریں