نواز شریف کے وکلاء کا فواد چودھری کے بیان کا نوٹس لینے کا مطالبہ

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث – فوٹو فائل


اسلام آباد: وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کی احتساب عدالت نے پاکستان مسلم لیگ نواز کے قائد نواز شریف کے وکلا ء سے کہا ہے کہ وہ وفاقی وزیر ا طلاعات فواد چودھری کے کل کے بیان کے حوالے سے تحریری درخواست دیں تو عدالت اس معاملے کو دیکھے گی۔

اسلام ٓباد کی احتساب عدالت نمبر دو میں جب نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کا آغاز ہوا تو نواز شریف کے وکلاء کی ٹیم نے وفاقی وزیر اطلاعات کے کل کے بیان پر اعتراض کیا۔  فود چودھری نے کل اپنے بیان میں کہا تھا کہ العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نواز شریف 100 فیصد جیل جائینگے۔  نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے معاون زبیر ایڈوکیٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ وزیر کے بیان پر ازخود نوٹس لے کر وزیر اطلاعات کو طلب کیا جائیں۔

زبیر ایڈوکیٹ نے کہا کہ فواد چوہدری نے عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے،ان کو الہام ہو گیا ہے یا چڑیا آ کر بتاتی ہے۔ زبیر ایڈووکیٹ نے کہا کہ چیف جسٹس نوٹس لیتے ہیں اس لیے کوئی جرآت نہیں کرتا بولنے کی۔ اس پر احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کہا کہ میں اس معاملے کو دیکھ لیتا ہوں۔

جج نے کہا کہ میں نے فواد چودہری کا انٹرویو نہیں سنا، آج کل ٹی وی نہیں دیکھتا اور انٹرویو کا پورا جائزہ لے کر فواد چودہری کو نوٹس کرنا ہوا تو کر دیں گے۔ جج نے مزید کہا میں پہلے یہاں چیمبر میں ٹی وی دیکھتا تھا اب وہ بھی چھوڑ دیا تاکے کوئی بات اس کیس سے متعلق اثرانداز نہ ہو۔

خواجہ حارث نے عدالت سے استدعا کی کہ فواد چودہری کے انٹرویو کا پورا ٹرانسکریٹ منگوایا جائے، پوری دنیا میں یہ اصول ہے کہ زیر سماعت مقدمہ پر بات نہیں کی جاتی، یہاں ٹی وی پر اینکرز پہلے ہی عدالتی فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ اس پر عدالت نے نواز شریف کے وکلاء سے کہا کہ  فواد چودہری کے انٹرویو سے متعلق با قاعدہ درخواست دائر کریں۔ فواد چودہری کو نوٹس جاری کرنا پڑا تو کریں گے۔

واجد ضیا پر پانچویں دن بھی جرح

آج نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے استعاثہ کے گواہ  واجد ضیا پر پانچویں دن بھی جرح جاری رکھی۔ خواجہ خارث کے سوال پر واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ گلف اسٹیل کے معاہدے میں طارق شفیع اور محمد حسین شراکت دار تھے، محمد حسین کا انتقال معاہدہے پر عمل درآمد سے پہلے ہی ہو گیا، طارق شفیع نے جے آئی ٹی کے سامنے کہا کہ وہ محمد حسین کے بعد اسکے بیٹے شہزاد حسین سے ملے تھے۔ واجد ضیاء نے مزید کہا کہ طارق شفیع کے مطابق محمد حسین مرحوم برطانوی شہری تھے، ہم نے محمد حسین کے بیٹے شہزاد حسین کو ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔ واجد ضیاء نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ  والیم ٹو میں طارق شفیع سے باس کے متعلق سوال کا ذکر نہیں کیا، طارق شفیع کے بیان کا جن صفحات پر تجزیہ کیا وہاں ان سوالات کا ذکر موجود ہے۔

خواجہ حارث نے پوچھا کہ طارق شفیع سے پوچھنے کے علاوہ کیا جے آئی ٹی اپنے طور پہ شہزاد حسین کی کھوج لگانے کی کوشش کی؟ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ  اسکے علاوہ اور کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ یہ کہنا غلط ہو گا کہ میں طارق شفیع کے بیان سے متعلق کوئی غلط بیانی کر رہا ہوں،  محمد عبداللہ آہلی کو شامل تفتیش نہیں کیا،14 اپریل 1980 کے معاہدے کی تصدیق کیلئے عبداللہ  آہلی سے رابطہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے نوٹس میں آیا کہ اس معاہدے کے گواہان میں عبدالوہاب ابرھیم گلہ داری کا نام بھی شامل ہے۔

عدالت نے نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ انویسمنٹ ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئ۔


متعلقہ خبریں